سردی سے میرے ہونٹ کپکپا رہے تھے، گھر کے تمام افراد کب کے اپنے اپنے کمروں میں سو چکے تھے اور میں اپنے کمرے میں اکیلا لحاف سے ذرا سا منہ باہر نکالے چھت کی کڑیاں گننے میں لگا ہوا تھا۔ دائیں سے گنتا تو تیرہ بائیں سے گنتا تو تیرہ۔ دماغ تھک گیا۔ اس کشمکش میں ایک بار پھر وقت دیکھا تو رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ لحاف کو اپنے گرد خوب لپیٹتا مگر جسم گرم نہ ہو پا رہا تھا۔ کھڑکی پر نظر پڑی تو تھوڑی کھلی تھی فورا اُٹھ کر بند کی اور پھر واپس لحاف لپیٹ کر لیٹ گیا۔ نیند نہیں آ رہی تھی ماضی کا اک لمحہ جس میں پوری زندگی مقید ہے وہ لمحہ میرے گرد دائرے کی مانند رقص کر رہا تھا۔ میں نے اس سے جان چھڑانے کے لیے ایک بار پھر زبردستی سونے کی کوشش میں آنکھیں بند کر کے لحاف منہ پر لپیٹ لیا۔ ابھی آنکھیں بند ہی ہوئیں تھیں کہ گھر کے گیٹ پر دستک ہوئی، میں نے نظر انداز کر دیا، پھر زور زور سے دستک ہونے لگی، میں بڑی مشکل سے اٹھ کر گیٹ تک گیا اور پوچھا، کون ہے؟۔۔۔۔ آواز آئی میں ہوں،۔۔۔۔ پھر پوچھا کون؟۔۔۔۔ پھر آواز آئی میں ہوں،۔۔۔۔ غصے سے گیٹ کھولا کہ۔۔۔۔ کون ہے جو صرف میں میں کر رہا ہے۔۔۔۔ نام نہیں بتاتا۔
باہر دیکھا تو کوئی بھی نہ تھا۔ گلی کے اک طرف جا کر دیکھا تو بھی کوئی نہیں اور گلی کے دوسری طرف آواز دی پھر بھی کوئی نہ تھا۔ میرا جسم شدید سردی کے باوجود گرم ہو چکا تھا، غصے کی حالت میں جب اپنے مین گیٹ کی طرف واپس آیا تو باہر سے کنڈی لگی تھی اور گھر کے اندر سے دستک کی آواز آ رہی تھی۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا کون ہے؟ آواز آئی۔۔۔۔ میں ہوں۔۔۔۔۔ پھر غصے سے پوچھا کون ہے؟۔۔۔۔ پھر جواب آیا۔۔۔۔ میں ہوں۔۔۔۔۔ میں نے کنڈی کھولی تو وہاں بھی کوئی نہ تھا۔ میں نے سارے کمرے دیکھے سب سو رہے تھے۔ میرا جسم پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔ اپنے کمرے میں داخل ہوا تو کچھ سانس بحال ہوئی مگر عجیب کش مکش کی حالت تھی۔ چارپائی سے لحاف کو لپیٹ کر کرسی پر رکھا، پنکھا چلا دیا اور لائٹ بند کر کے چارپائی پر لیٹ گیا اور سوچنے لگا، "ماضی کا ایک لمحہ کبھی بھی دستک دے سکتا ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔