ارشد خالد سے میری ٹیلی فونک ملاقات حیدر قریشی کے ذریعے ہوئی۔ حیدر قریشی سے میری تقریباً تیس سال کی دوستی ہے جو بہت عرصے سے جرمنی میں مقیم ہیں۔ جدید ادب کے نام سے ایک معروف ادبی مجلہ اور ای میل کی دنیا میں اردو ادب کے حوالے سے ہونے والے مختلف واقعات اور علمی مباحث کی صورتحال اکثر و بیشتر انھی کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے۔ حیدر قریشی شاعر و افسانہ نگار اور نقاد بھی ہیں۔ ارشد خالد کے ساتھ اُن کے دیرینہ مراسم ہیں۔ اور راولپنڈی اسلام آباد سے شائع ہونے والا ادبی رسالہ ’’عکاس‘‘ جو بڑے تواتر سے شائع ہوتا ہے وہ ارشد خالد اور حیدر قریشی کی مشترکہ محنت اور توجہ ہی کا نتیجہ ہے۔
ارشد خالد ان شعرا میں سے ہیں جو ’’عکاس‘‘ کے ذریعے اپنی پروجیکشن کی بجائے معاصر ادب پر توجہ دیتے ہیں۔ اسی لیے شاید انھوں نے اپنے مجموعے کا نام ’’پارٹ ٹائم شاعری‘‘ رکھا ہے۔ پارٹ ٹائم کو عمومی طور پر لوگ ایسا وقت سمجھتے ہیں جس میں لوگ کم اہمیت کے حامل کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ مگر ارشد خالد کی نظمیں بتاتی ہیں کہ یہ پارٹ ٹائم میں کیے جانے والے کاموں میں سے نہیں ہیں۔ ان نظموں کو پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ یہ شبانہ روز کے تخلیقی ارتکاز کا نتیجہ ہیں ۔ یہ نظمیں ان شاعروں کی شاعری کی طرح نہیں ہیں جو لمحہ بہ لمحہ کوئی نہ کوئی غزل لکھ کر فیس بک پر نشر کرتے ہیں یا شام کی محفلوں کو گرمانے کے لیے سنانا ضروری سمجھتے ہیں۔ ارشد خالد بنیادی طور پر ایک بینکار ہیں اور انھوں نے اپنی ملازمت کے عرصے کو بہت سنجیدگی سے نبھایا ہے۔ اس دوران چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے شاعری ان کے رگ و پے میں سانس لیتی رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی کئی نظمیں لکھنے سے پہلے مصرع مصرع ان کے دماغ میں پکتی رہی ہوں گی اور کاغذ پر آنے سے پہلے مکمل نظم ان کو یاد ہو جایا کرتی ہو گی۔ اور فرصت ملنے پر وہ اسے کاغذ پر منتقل کرتے ہوں۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان کی نظمیں درخت کی شاخوں پر موسم کی دھوپ میں پکے ہوئے آموں کی طرح ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ان کی ایک نظم ’’منزلیں یقین کی‘‘ ملاحظہ کریں:
عجیب سی ہیں منزلیں یقین کی
نواسۂ رسول جب ہوئے سوار دوش پر
تو جیسے رک کے رہ گئے
وقت بھی، نماز بھی
خطۂ حجاز بھی
لگتا ہے ناں کہ ایک سانس میں کہی گئی نظم ہے۔ جتنا وقت اس نظم کو پڑھنے میں لگتا ہے اتنا ہی وقت اسے دماغ سے کاغذ پر اترنے میں لگا ہو گا۔ ارشد خالد کے دل میں پنجتن پاک کی محبت صبح و شام دھڑکن کی طرح دھڑکتی ہے۔ ’’پارٹ ٹائم شاعری‘‘ کی ابتدا میں کئی نظمیں خانوادئہ رسول کی محبت سے سرشار ہیں۔ ’’مؤدت‘‘ کے عنوان سے ایک اور نظم ملاحظہ کریں:
مؤدت میں ذرا آگے کو بڑھتا ہوں
مؤدت میں بدلتا ہوں
تواک معصوم ہستی کا لبوں پر نام آتا ہے
کہ جس کے نام سے خیر کثیر آتا ہی جاتا ہے
تو میں بھی اب مؤدت میں
اسی کا نام لیتا ہوں
اسی کا نام جپتاہوں
شخصی اعتبار سے ارشد خالد بہت دھیمے آدمی ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات جیو ٹی وی کے دفتر میں امین خیال صاحب کے ہمراہ ہوئی تھی۔ اُس دن ہم دونوں کو حیدر قریشی نے دوستی کی جس ڈور میں باندھا تھا اس کی گرہ اور مضبوط ہو گئی۔ وہ بھی ایک مختصر ملاقات تھی۔ ان کی مختصر نظموں کی طرح مضبوط اور پُر تاثیر۔ ’’پارٹ ٹائم شاعری‘‘ کی بیس پچیس نظمیں جو انھوں نے مجھے بھیجی تھیں ان میں سے ایک نظم کا عنوان پڑھ کر میں چونکا کہ علی محمد فرشی کی ’’علینہ ‘‘ اِن کے پاس کہاں سے آ گئی۔ مگر جب نظم پڑھی تو پتا چلا کہ ارشد خالد نے ’’علینہ‘‘ کو اغوا نہیں کیا، وہ خود اُس کے پاس آئی یہ کہنے کے لیے کہ فرشی سے کہو کہ اب مجھے آزاد کر دے اب مجھے گھر بھی جانا ہے۔ مگر بھائی ارشد خالد ’’علینہ‘‘ تو بھائی فرشی کے شخصی خاکے کے بنیادی خطوط کی روشنائی ہے۔ ایک نظم میں اسے لکھو کہ فرشی کا دل ہی اب تمھارا گھر ہے۔
ارشد خالد نے کچھ صحرائی نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی ایک مختصر ترین نظم ملاحظہ کریں:
صحرا کی پیاس کو میرے دل میں اتار کر
چلتا ہے ساتھ ساتھ
وہ دریا لیے ہوئے
ارشد خالد کی نظموں کا ایک عام پہلو یہ بھی ہے کہ اُن کی نظموں کو پڑھ پڑھ کر پڑھنے والا تھکتا نہیں ہے بلکہ ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ ارشد خالد ’’عکاس‘‘ کے ساتھ ساتھ ان نظموں کو بھی تواتر کے ساتھ اپنے پڑھنے والوں تک پہنچاتا رہے تاکہ اس کی متنوع نظموں کی تاثیر دور دور تک پہنچے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔