خواب بنتے رہے اور آنکھوں سے
بن بن کے گرتے رہے
کتنے منظر تھے جو اَب کہیں بھی نہیں
جو تعلق بنائے اِدھر سے اُدھر
دھیرے دھیرے وہ جاں سے بھی
پیارے ہوئے
اُن دنوں کی محبت کا یہ ذکر ہے
جب موبائل بھی یوں عام ہوتے نہ تھے
رابطے ایسے آسان ہوتے نہ تھے
بھیج کر پھول دریا کی لہروں پہ ہم
اُس طرف بھیجا کرتے تھے پیغام ِدل
اور پھر اُس طرف بھی کنارے کنارے
دیئے جلنے لگتے سر شام ہی ،
اُن دنوں کی محبت کا یہ ذکر ہے
جب موبائل ابھی عام ہوتے نہ تھے
کچھ لکیریں تھیں سرحد بناتی ہوئیں
اور سرحد کی اُس دوسری سمت پر
کوئی تھا جو مجھے جاں سے پیارا لگا
سوچ کر جس کو دل بھی دھڑکنے لگا
دل بھی وہ دل کہ جس کے
دھڑکنے کی امید تھی ہی نہیں
ایک مدت اُدھر پھول جاتے رہے اور
سر شام جلتے رہے اس طرف سے دیئے
پھر نجانے اُدھر ایسا کیا ہوگیا
اک دیا بھی نہیں مدتوں سے جلا
پھول جاتے رہے
پھول تو اب بھی میں بھیجتی ہوں اُدھر
پر مجھے کوئی دے بھی اُدھر کی خبر
کون آندھی چلی سب دیئے بجھ گئے
وہ کہاں کھو گیا جسکی خاطر میں دریا کی
لہروں پہ ہر روز اک پھول ابھی تک
اُدھر میں روانہ کیے جا رہی ہوں
اب موبائل تو ہر شخص کے پاس ہے
پر مجھے اُس طرف کی ابھی
بھی خبر کوئی ملتی نہیں ۔۔یا خدا تو بتا
اُس طرف کی مجھے کون دے گا خبر
جو دیوں کو جلاتا تھا میرے لیے
وہ کہاں کھوگیا،وہ کہیں کھو گیا
یا کہ دریا کنارے کہیں خاک میں سو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔