اپنی زمین اپنا سمندر کہاں سے لائیں
جو دل میں ہے وہ شہر وہ منظر کہاں سے لائیں
بستی نئی ہے ‘ لوگ نئے ‘ راستے نئے
ماضی میں سانس لیتا ہوا گھر کہاں سے لائیں
شام آگئی ہے شام کی دہلیز پر مگر
جلتا ہُوا چراغ اٹھا کر کہاں سے لائیں
تنہا سا کھویا کھویا سا اک بے مثال شخص
اُس انجمن نژاد کا پیکر کہاں سے لائیں
لکھتے تو ہیں ہم اپنی کہانی ورق ورق
وابستگان ِ درد کے تیور کہاں سے لائیں
رشتوں کے زخم سہتی ہوئی کائنات میں
تنہائیوں کا قیمتی پتھر کہاں سے لائیں
خوش قامتی کی ریشمی چادر میں ہے ابھی
دنیا کو اپنے قد کے برابر کہاں سے لائیں
ناراض ہوچکے ہیں خدا سے ہمارے لوگ
اب اُن کی رہبر ی کو پیمبر کہاں سے لائیں
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
غالب کی طرح بادہ و ساغر کہاں سے لائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔