اگر پاک و ہند کے علاوہ اردو کی دوسری بستیوں کی طرف توجہ کی جائے جہاں اردو زبان و ادب کی ترویج اور تسلسل کا عمل جاری ہے تو کینیڈاکو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں ایسے لکھنے والے تو موجود ہیں ہی جنہوں نے پاک و ہند میں لکھنے کی ابتدا کی تھی پھر کینیڈا کو اپنامستقر بنا لیا اور ایسے لکھنے والے بھی ملیں گے جنھوں نے وہیں لکھنے کا آغاز کیا اور خاصے معروف ہوئے۔ اس وقت عبداللہ جاوید کے افسانوں کا مجموعہ ’’ بھاگتے لمحے‘‘ میرے زیرِ مطالعہ ہے۔ عبداللہ جاوید خاصے سینیئر لکھنے والے ہیں۔ ۴۰ کی دہائی میں انہوں نے لکھنے کا آغاز کیا۔ بچوں کے لئے کہانیاں لکھیں، شاعری کی، خاکے لکھے، کالم نویسی کی، اور تنقیدی ادبی مضامین بھی لکھے۔ بہت سی کتابیں شائع ہوئیں اور بہت سی زیرِ طبع اور اشاعت کی منتظر ہیں۔ اردو کے ساتھ انگریزی زبان میں بھی یکسا ں قدرت رکھتے ہیں اس لئے انہوں نے دونوں زبانوں میں شاعری کی اور دونوں زبانوں میں افسانے لکھے۔ شاعری کے تو ان کے کئی مجموعے شائع ہوئے اور ایک مجموعہ ’’ موجِ صد رنگ‘‘ کے دو ایڈیشن شائع ہوئے۔ لیکن افسانوں کا ایک ہی مجموعہ ’’ بھاگتے لمحے‘‘ ۲۰۱۰ میں شائع ہوا۔
عبداللہ جاوید کا اصلی نام محمد عبداللہ خان جاوید ہے۔ پہلے انھوں نے جاوید یوسف زئی کے نام سے قلمی نام اختیا ر کیا اور معروف رسالوں میں ان کے افسانے اسی نام سے شائع ہوئے۔ یہ سلسلہ تقریباً بیس سال تک چلتا رہا۔ پھر انہوں نے اس قلمی نام کو ترک کر دیا اور عبداللہ جاوید کے نام سے لکھنے لگے۔جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا ہے ’’ بھاگتے لمحے‘‘ عبداللہ جاوید کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں ان افسانوں کو جگہ نہ مل سکی جو جاوید یوسف زئی کے نام سے لکھے گئے تھے۔ قاری کو اس کا اندازہ کرنا مشکل ہو گا کہ ان کا ارتقائی سفر کیسا رہا، آغاز میں انہوں نے کس طرح کے افسانے لکھے اور اب کس طرح کے افسانے لکھ رہے ہیں ۔یہ ان افسانوں کا ہی تسلسل ہے یا ان موضوعات اور اسلوب سے انحراف ہے یہ مجموعہ ان کے افسانوں کا انتخاب ہے جس میں ضروری تھا ان کے کچھ افسانے ابتدائی دور کے بھی شامل کئے جاتے۔
اس مجموعہ میں ان کے بیس افسانے شامل ہیں۔ کچھ افسانے طویل ہیں اور کچھ مختصر۔ ہر افسانہ اپنے لئے خود سانچہ متعین کرتا ہے۔ کئی افسانے ایسے ہیں جو خود کلامی کے انداز میں لکھے گئے ہیں۔ یا ان کو بیان کرنے والا واحد متکلم کے صیغے میں موجود ہے۔ ان افسانوں کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ عبداللہ جاوید ایک مختلف اور بڑے وژن کے مالک ہیں۔ منفرد ہونا کوئی بڑی خوبی نہیں ہوتی۔ لیکن اس میں ایک نیا زاویہ، بڑا وژن، مختلف اسلوب بیان در آئے تو انفرادیت اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ عبداللہ جادیدکے افسانوں میں ایک نیا ذائقہ ملتا ہے۔ اور ہر موضوع کے لئے وہ اپنا ایک زاویہء نظر رکھتے ہیں۔ یہاں ان کے تمام بیس افسانوں کا جائزہ لینا تو مشکل ہو گا جب کہ سب افسانے کسی نہ کسی لحاظ سے اہم ضرور ہیں۔
اس مجموعے کا پہلا افسانہ ’’ دختر آب‘‘ ہے جس میں بڑا بے باک اور فطری لہجہ اختیار کیا گیا ہے آخر کے چند جملے قاری کا جھٹکا نہیں دیتے بلکہ ایسی جگہ لے جاتے ہیں جہاں اُسے بہت سے سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی یہ خوبی تقریباً ہر افسانے میں موجود ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے ۔اُسے نئے وژن سے دوچار کرتے ہیں۔ نئے اسلوب سے متعارف کرواتے ہیں ۔ اسلوب تو زیادہ تر بیانیہ ہی ہے اور کسی کسی افسانے میں یہ طوالت بھی اختیار کر گیا ہے جو قدرے گراں گزرتا ہے۔ لیکن شاید افسانہ نگار اپنی پوری بات اسی طرح کہہ سکتا ہے۔’’ ہونے کا درخت‘‘ ایسا افسانہ ہے جس پر ممکن ہے’ انشائیہ‘ کی چھاپ لگے لیکن اصل میں یہ Stream of consciousness کی تکنیک میں لکھے جانے والے افسانے کی بڑی اچھی مثال ہے۔ اس میں ایک ایسا بہاؤ اور ایسی لہر ہے جو قاری کو اپنے ساتھ لئے پھرتی ہے۔’’ دسواں مکان‘‘ نسبتاََ ایک مختصر افسانہ ہے جس کے آخر کے چند جملے بڑی خوشگوار کیفیت سے دو چار کرتے ہیں۔ ’’ میری بیوی‘‘ میں پھر ایک بار افسانہ نگار کا وژن کھل کر سامنے آتا ہے۔ وہی بے باک بیانیہ، وہی بولڈ جملے ،جو مجموعے کے پہلے افسانے ’’ دختر آب‘‘ میں نظر آیا ۔
اس تبصرے میں مجموعے کے تمام افسانوں کا ذکر اور ان کا تجزیہ تو ممکن نہیں لیکن اتنی بات تو پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ عبداللہ جاوید کا قلم نہ صرف یہ کہ ابھی تک تھکا نہیں بلکہ نت نئے Dimentions تلاش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور کئی افسانوں میں ایسی مثالیں نظر آتی ہیں جن کو بنیاد بنا کر کہا جا سکتا ہے کہ اردو افسانے کے فن کی وسعت کے لئے ابھی بڑی گنجائش موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔