رائیگانی کا عارضہ ہے مجھے
زندگی ایک حادثہ ہے مجھے
اس خرابے سے کب گلہ ہے مجھے
اپنا ہونا ہی مسئلہ ہے مجھے
ضمنی کردار ہوں کہانی کا
اپنی تقدیر کا پتہ ہے مجھے
مجھ کو اندر کی کچھ خبر ہی نہیں
اور باہر کا سب پتہ ہے مجھے
میری ہی آنکھ کے وسیلے سے
خواب اندر سے دیکھتا ہے مجھے
کتنے چہرے اٹھائے پھرتا ہوں
آئینہ پھر بھی جانتا ہے مجھے
اک خوشی سود پر ملی تھی کہیں
اس کا قرضہ اتارنا ہے مجھے
یوں ہی خاموش میں نہیں بیٹھا
شور اندر کا ٹوکتا ہے مجھے
شہر میں سر جھکا کے چلتا ہوں
اپنے حالات کا پتا ہے مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔