ارادہ
میں اس روز روز کی جھنجھٹ سے تنگ آ چکی تھی۔محبت تو اب برائے نام بھی نہ تھی۔ہر ملاقات جھگڑے سے شروع ہو کر جھگڑے پہ ہی ختم ہو جاتی۔موبائل پر کال کرو تو بھی لڑنے جھگڑنے کے علاؤہ کچھ کہنے سننے اور محسوس کرنے کو نہ تھا۔اس سلسلے کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔
چمن پارک میں ایک دوسرے پر خوب دل ٹھنڈا کر لینے کے بعد میں ایک طرف چل پڑی اور وہ ہمیشہ کی طرح دوسری جانب۔مگر آج میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھوں گی۔ کیونکہ ہر بار میں پیچھے مڑ کر دیکھتی تو وہ بھی پلٹ کر ضرور دیکھتا اور یوں ہم اس سلسلے کو توڑ نہ پاتے۔مجھے اس بار خود کو مضبوط کرنا پڑے گا۔
کافی دیر بعد جب میں پارک سے نکلنے کو تھی تو میں نے یوں ہی مڑ کر اسے دیکھا وہ اسی طرح بغیر مڑے اسی جانب آگے بڑھ رہا تھا غالباً وہ بھی میری طرح ہی سوچ رہا تھا مگر۔۔۔۔۔وہ ارادے کا پکا تھا۔
زہر
دیکھو میری بات غور سے سن لو۔
جی بابا جی سن رہا ہوں۔میں نے مؤدب انداز میں کہا''
بابا جی گویا ہوئے۔میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ نصیحت کا لفظ اپنی ڈائری سے نکال دو۔اس صفحے کو اپنی کتاب سے پھاڑ ڈالو۔کبھی کسی کو نصیحت نہ کرنا۔
''جی اچھا۔۔۔بابا جی ایسا ہی کروں گا۔میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
اور یاد رکھو اپنی اولاد کو تو کبھی نصیحت نہ کرنا۔اولاد کو نصیحت زہر اور نصیحت کرنے والا زہر سے بھی زیادہ برا لگتا ہے۔
مگر بابا جی! نصیحت نہیں کروں گا تو وہ راہ راست پر کیسے آئیں گے۔۔بھٹکیں گے تو کیسے نجات پائیں گے۔میں نے استفسار کیا۔
بس نصیحت نہ کر خود اچھا ہوجا۔۔۔۔جیسا تو ہے وہ خود ہی ویسے بن جائیں گے۔
پیری کا دکھ
اس نے میرے سفید گرتے ہوئے بالوں کی طرف دیکھ کر کہا۔آپ اب صابن سے سر دھوتے ہیں۔شیمپو استعمال کیوں نہیں کرتے؟
میں نے بڑی حسرت سے جواب دیا''تب میں اپنے ماں باپ کا بچہ تھا۔
''اور اب؟''اس نے استفسار کیا''
اور اب میرے بچے ہیں۔۔۔۔۔وہ شیمپو سے سر دھوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔