(اکبر حمیدی کے انشائیوں کے حوالے سے)
فرحت نواز کا ایک اور تنقیدی مضمون اکبر حمیدی کے انشائیوں کے حوالے سے ہے۔اور اِس مضمون میں فرحت نواز نے بر ملا اعتراف کیا ہے کہ انشائیہ نگاری کی صنف سے جو اُن کی دلچسپی پیدا ہوئی اِس کی بنیادی وجہ اکبر حمیدی ہیں بسا اوقات کسی ادیب کی تحریریں پڑھنے والوں کو اِس حد تک متاثر کرتی ہیں کہ قاری اس ادیب کی تقلید میں ان راہوں پر بھی شوق اور بھرپور تجسس کے ساتھ سفر پر آمادہ ہو جاتا ہے جو کبھی اس کی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں ہوتے اور اصل میں یہی شوق اور جستجو تحقیق کا در وَا کرتے ہیں اور پھر اِس کے بعد بہت سے لوگ ان تجربات پر تنقید کے قابل بھی ہو جاتے ہیں۔ فرحت نواز کے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوا۔ اپنے مضمون ’’ اکبر حمیدی کے انشائیے‘‘ کے ابتدائی سطور میں اپنے اِس تجربے کو کچھ یوں بیان کرتی ہیں:
’’ انشائیہ کے مطالعہ کا شوق بھی مجھے یونہی نہیں ہوا ایک بار اکبر حمیدی نے لکھا تھا کہ ’’ انشائیہ اتنی سبک اور لطیف صنفِ ادب ہے کہ اِسے پوری طرح گرفت میں لینا۔ اِس کا مطالعہ کرنا ، اس کا مزاج داں ہونا اور اسے لکھنے کی قدرت حاصل کرنا نہایت مشکل ہے‘‘ میں نے انشائیہ کا مطالعہ کرنے اور مزاج داں ہونے کے اِس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے انشائیوں کا مطالعہ شروع کیا اور یہ مطالعہ آج تک جاری ہے میں انشائیہ کی مزاج داں ہونے کا دعویٰ تو نہیں کرتی لیکن اِس کے مطالعہ کی عادت کا کریڈٹ بڑی حد تک اکبر حمیدی کو ہی جاتا ہے۔‘‘
فرحت نواز اِس تنقیدی مضمون میں اکبر حمیدی کے انشائیوں کے مجموعے ’’ جزیرے کا سفر‘‘ پر تبصرہ کیا ہے اِس مجموعے میں شامل اکیس انشائیوں کے فنی محاسن کے ساتھ ساتھ اِس میں رہ جانے والی کمی کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ فرحت نواز ایک امتزاجی نقاد ہیں، وہ مختلف سرگرم تنقیدی مکاتب میں سے کسی خاص کے زیر اثر نہیں لکھتیں۔ اِس وصف کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا امتزاجی تنقید کی تھیوری کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں: ’’ میرا موقف یہ ہے کہ تخلیق کو پوری طرح پڑھنے میں صرف وہی نقاد کامیاب ہو سکتا ہے جو کسی تنقید میں فرقہ پرستی کا چلن ایک محدود زاویۂ نگاہ کو جنم دیتا ہے۔ نقاد کو کھلے دل و دماغ کے ساتھ اپنی پوری ذات کو تخلیق کے رو برو لانا چاہیے۔ ‘‘
فرحت نواز بہ حیثیت نقاد کسی محدود زاویۂ نگاہ کے ماتحت نہیں لکھتیں وہ نہایت کھلے دل و دماغ کے ساتھ اپنی ذات کو تخلیق کے رو برو لاتی ہیں اور اِس کے لیے وہ خود ہی اُن مشکل اور دشوار گزار گھاٹیوں میں اترتی ہیں جن کا سامنا ادیب کو خود تخلیق کے وقت تھا۔ اِس کے لیے ایک نقاد کا خود اُس صنفِ ادب سے جو اُس کے تنقیدی عمل سے گزر رہی ہے ،نہ صرف واقف ہونا بلکہ اس کے پسِ منظر اور مستقبل کی طرف پیش گوئی کی صلاحیت ہونا بھی ضروری ہے۔ فرحت نواز کے ہاں ایک نقاد کی حیثیت سے یہ خوبی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ فرحت نواز نے جس موضوع پر بھی لکھا اور اپنا تنقیدی نقطۂ نظر بیان کیا پہلے مجموعی طور پر خود اس کے وسیع مطالعے کے عمل سے گزریں اور پھر ادیب کی انفرادیت اور اسلوب کی کھوج بھی نہایت باریک بینی اور کامیابی سے لگائی۔ سیّد احتشام الدین بھی ایک نقاد سے اِسی وصف کے متقاضی ہیں کہ وہ:’’ اس فلسفے کو ڈھونڈ نکالے جو ادیب کے خیالوں کو ایک مربوط شکل میں پیش کرنے کا ذریعہ بنا۔ اس طرح یقیناً ایک منزل میں تو نقاد کو بھی ادیب کے ساتھ ہر وادی و کوہسار میں چلنا پڑے گا۔ ‘‘
فرحت نواز ایک نقاد کی حیثیت سے زیر تنقید تخلیق کو کئی زاویوں سے پرکھتی ہیں۔ ان کی تنقید نہایت متوازن ہے وہ زیر تنقید تخلیق کے بہت سے معنی اخذ کرتی ہیں اور اس میں اُن کا رویہ نہایت غیر جانب دارانہ ہوتا ہے اور یہی منصفانہ تنقید کی شرطِ اولین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرحت نواز کی تنقید میں ہمیں جہاں تخلیق کار کی فنی خوبیوں کا تذکرہ ملتا ہے وہاں خامی کی نشاندہی کی مثال بھی موجود ہے ۔ ایک نقاد کی حیثیت سے فرحت نواز جس طرح مختلف زاویوں سے اپنے مؤقف کی تشریح و توضیح کرتی ہیں وہ لائقِ تحسین ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نقاد کی اِسی خوبی کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
’’ سب جانتے ہیں کہ رات کے وقت صرف ایک قمقمہ جل رہا ہو تو شے یا شخص کے اند رسے صرف ایک سایہ برآمد ہو گالیکن متعدد قمقمے جل رہے ہوں تو اُن کی تعداد کے مطابق شخص یا شے میں سے سائے برآمد ہوں گے۔ یہی حال تخلیق کا ہے۔ اگر نقاد کا رویہ امتزاجی ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس کی ذات کے اندر کئی قمقمے روشن ہوں گے اور ان قمقموں کی تعداد کے مطابق تخلیق میں سے معانی کا انشراح ہو گا۔‘‘
فرحت نواز نے اکبر حمیدی کے انشائیوں پر کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے کہ انشائیے جیسی صنف کو وہ غزل سے مماثل قرار دیتی ہیں لیکن یہ خوبی ہر انشائیہ نگار کے انشائیوں میں نہیں بلکہ صرف اکبر حمیدی کے لکھے گئے انشائیوں میں موجود ہے۔ اکبر حمیدی جو بنیادی طور پر ایک غزل گو شاعر تھے اور جس طرح غزل کے اشعار الگ الگ ہو کر بھی مربوط ہوتے ہیں اِسی طرح اکبر حمیدی کے انشائیے ایک دوسرے سے الگ الگ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی تخلیق کی وجہ بنے ۔فرحت نواز نے بہ حیثیت نقاد اکبر حمیدی کے انشائیوں کے درمیان بظاہر نہ نظر آنے والی اِس کڑی کی نشاندہی کی۔ اِس حوالے سے فرحت نواز لکھتی ہیں: ’’ اکبر حمیدی بنیادی طور غزل گو شاعر ہیں اور انشائیہ کے باب میں ان کا اپنا مؤقف یہ ہے کہ انشائیہ بھی غزل کے اشعار کی طرح ہوتا ہے لخت لخت اور منسلک۔اکبر حمیدی کے انشائیوں کی یہ پوری کتاب بجائے خود ایک غزل کے اشعار کی طرح لخت لخت اور منسلک و مربوط ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہر انشائیہ دوسرے انشائیہ کی تخلیق کا امکان پیدا کرتا ہے یوں ہر انشائیہ اپنی جگہ پر ایک اکائی ہونے کے باوجود دوسرے انشائیہ میں پرویا ہوا نظر آتا ہے اور ’’ جزیرے کا سفر‘‘ مسلسل غزل کے ترنم اوربہائو کی کیفیت کو پیش کرنے لگتا ہے۔‘‘
ایک نقاد کسی فن پارے کے عیوب و محاسن ہی کی نشاند ہی نہیںکرتا بلکہ اس کی معنویت کو ہر زاویے سے اِس طرح بیان کرتا ہے کہ قاری کے لیے نہ صرف اُس فن پارے کی تفہیم میں آسانی ہو جاتی ہے بلکہ اِس کے لیے بہت سے اثر انگیز معانی جو نقاد کی رہنمائی کے بغیر اُس پر منکشف نہیں ہو سکتے تھے، ظاہر ہو کر صحیح فنی تاثر قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ فرحت نواز کے تنقیدی مضامین میں یہ خوبی بھی موجود ہے ۔ نقاد کے اس وصف کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا کہتے ہیں:’’ ایک فرقہ پرست نقاد، تخلیق میں سے صرف ایک معنی کشید کرتا ہے جو اُسے مرغوب ہے مگر ایک امتزاجی نقاد، تخلیق کو معانی کی آماج گاہ بنا دیتا ہے۔ یہ نہیں کہ امتزاجی نقاد اپنی طرف سے تخلیق میں معانی ڈالتا ہے، وہ تو تخلیق میں موجود مخفی معانی کو کھل کر سامنے آنے کی تحریک دیتا ہے۔‘‘
فرحت نواز ایک فرقہ پرست نقاد نہیں انہوں نے زیر نظر فن پارے میں سے ہر وہ معنی اخذ کرنے کی سعی کی جو اُن کے لیے ممکن تھا اِس عمل میں اُن کی پسند یا ناپسند کا کوئی عمل دخل نہیں رہا۔فرحت نواز نے بہ حیثیت نقاد اکبر حمیدی کے لکھے گئے انشائیوں کا مفصل جائزہ لے کر اُن عناصر کا انکشاف کیا جنہوں نے مل کر اُن کے انشائیوں کے مجموعے ’’ جزیرے کا سفر‘‘ کو مخصوص صفت عطا کی ہے۔ایک اچھا نقاد اِس بات سے واقف ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کسی مصنف کے متعلق کہے گا وہ مصنف کے لکھے ہوئے الفاظ پر مبنی ہونا چاہیے۔ اِس لیے وہ اپنے بنیادی تبصروں اور محاکموں کو اصل متن سے حوالہ دے دے کر تقویت پہنچاتا ہے۔ فرحت نواز کے ہاں بھی یہی تنقیدی طریقۂ کار موجود ہے۔ اپنے زیرِ بحث مضمون میں وہ اکبر حمیدی کے انشائیوں کا ایک اور وصف یوں بیان کرتی ہیں:’’ اکبر حمیدی کے انشائیوں میں مجھے بہت سے جگہوں پر یہ احساس بھی ہوتا رہا کہ موضوع مجسم ہو گیا ہے اور کسی افسانے کے کردار کی طرح اِس میں جیسے جان سے پڑ گئی ہے مثلاً ’’ جزیرے کا سفر‘‘ میں جزیرہ ایک کردار کا روپ دھارتا نظر آتا ہے۔‘‘
فرحت نواز نے ایک بے لاگ نقاد کی حیثیت سے چند مصنفین اور اُن کے فن پاروں پر قلم اٹھایا ہے اِس سلسلے میں فرحت نواز کو اپنی ذمہ داری کا کامل شعور ہے۔فرحت نواز نے فن پارے کے نہ صرف معانی کی تفہیم اور وضاحت کی بلکہ اِس کی ساخت اور تکنیک کا تجزیہ بھی کیا اُس سے جنم لینے والے لطف و انبساط کا ابلاغ کیا اور قارئین کو اِس قابل کیا کہ وہ اُس فن پارے کے اُن محاسن سے محظوظ ہو سکیں جو اُس میں مضمر ہیں ۔ ایک نقاد کی اہم ذمہ داری لوگوں کے ذوقِ ادب کی اصلاح بھی ہے جسے فرحت نواز نے احسن طریقے سے انجام دیا۔ وہ اُردو انشائیے کے حوالہ سے لکھتی ہیں:
’’جدید افسانے کا سب سے بڑا موضوع شناخت کی گمشدگی کا المیہ ہے اور اس موضوع کے بہائو کی شدت میں بہت سے جدید افسانہ نگار جدید افسانے کی شناخت بھی گم کر بیٹھے ہیں۔ اُردو انشائیہ کی خوبی یہ ہے کہ اِس نے تہذیبی بے چہرگی اور بے یقینی کے عالم میں اِنسان کو مزید پریشان نہیں کیا بلکہ اس کے یقین اور اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دکھ کی حالت میں بھی خوش رہنے کی راہیں تراشی ہیں خوف کے عالم میں حوصلہ بڑھایا ہے۔‘‘
ایک ذمہ دار نقاد ان تمام عوامل یعنی نسلی، سماجی، سیاسی اوردیگر حالات کا جائزہ لیتا ہے جو کسی دور یا عصرکا مزاج متعین کرتے ہیں اور چونکہ ہر ادیب اِن حالات سے متاثر ہوتا ہے اِس لیے اِن عوامل کی تفہیم اور حوالے کے بغیر اس کے تخلیق کردہ فن کا صحیح استحسان ممکن نہیں۔ فرحت نواز کی تنقیدمیں یہ خوبی بھی موجود ہے۔ وہ تخلیق کار کو اُس کے دور اور زمانے کے حالات و واقعات اور اس کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر جانچنے کی سعی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اکبر حمیدی کے انشائیہ ’’ دور اندیشی‘‘ پر کچھ یوں اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں:
’’اسی انشائیے میں نیو کلیئر وار کی متوقع تباہ کاریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آج کے انسان کے ذہن میں کلبلانے والے خوف کو یوں حوصلے میں تبدیل کرنے کا جتن کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ محض اس خیال کے باعث کہا گیا ہے کہ وقت آگے نکل جائے گا اور انسان پیچھے رہ جائے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے بڑے عالموں کو تاریخِ انسانی کے مطالعہ سے یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ انسان ہمیشہ وقت سے صدیوں آگے رہا ہے اور اِس نے بیل کو کبھی دُم سے نہیں پکڑا ہمیشہ سینگوں سے پکڑ کر قابو میں کیا ہے۔‘‘
بلند رتبہ نقاد منجھے ہوئے ذوق کا قاری ہوتا ہے جو ادب کا وسیع تجربہ رکھتا ہے وہ ادب کی ماہیت اورا دب میں کارفرما بڑے بڑے اصولوں سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ فرحت نواز نے اپنے تنقیدی مضامین میں صِرف تخلیق کار کے طرز نگارش کی خوبیاں اور خامیاں ہی بیان نہیں کیں بلکہ اِس کے ساتھ ساتھ پڑھنے والے کو اُس صنف سے بھی متعارف کروایا ہے جس میں تخلیق کار نے اپنے تخلیقی جوہر دکھائے ہیں یوں فرحت نواز بہ حیثیت نقاد صِرف ادیب کی ہی راہ نمائی نہیں کرتیں بلکہ قارئین کی تخلیق کی کامیابی یا ناکامی کے علاوہ اس صنفِ ادب سے بھی تعارف کرواتی ہیں جو ادب کی راہوں میں محوِ سفر ہے۔ انشائیہ کے بنیادی مزاج کے حوالے سے فرحت نواز کچھ یوں رقم طراز ہیں:’’ جہاں تک زندگی کا تعلق ہے وہ تو انشائیہ میں دھڑکتی ہے، ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیوں سے لے کر اکبر حمیدی کے انشائیوں تک تمام جینوئن انشائیہ نگاروں کے انشائیوں میں زندگی کی دھڑکن صاف سنائی دیتی ہے یہ امر بے حد خوشی کا باعث ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اُردو انشائیہ کی جو صحت مند روایت قائم کی تھی وہ نہ صرف ادب میں جڑ پکڑ چکی ہے بلکہ اِس کی شاخوں پر اب پھل پھول بھی آنے لگے ہیں ’’ جزیرے کا سفر‘‘ اِسی روایت کا ایک میٹھا ثمر ہے۔‘‘
فن کار زندگی کی ترجمانی اور تشریح و توضیح مختلف اصنافِ ادب کے پردے میں کرتا ہے اور ایک نقاد بھی زندگی کے حقائق سے واقف ہونے کے باعث تخلیق کے مواد کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے ۔ بہ حیثیت نقاد فرحت نواز اور تخلیق کار دونوں کے عمل میں زندگی کا حوالہ موجود ہے۔کسی فن پارے کے عیوب کی صحیح نشاندہی ایک نقاد کا فرض بھی ہے اور حق بھی۔ اگرچہ نقاد کا کام ادیب کو معیاری ادب تخلیق کرنا سکھانا نہیں لیکن اِس طرح وہ ادیب کی رہنمائی کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو سکتا ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ قارئین کو بھی فن پارے کے عیوب کا علم عطا کر کے ادب کے کم پایہ معیار کی ترویج کا راستہ روکتا ہے ۔ فرحت نواز نے بھی ا ِس فرض کو نہایت احسن طریقے سے ادا کیا۔جہاں فرحت نواز نے اکبر حمیدی کے انشائیوں کے مجموعے ’’ جزیرے کا سفر‘‘ کے محاسن بیان کیے ہیں وہاں اپنے تنقیدی مضمون میں اِ س کی خامیوں کا تذکرہ کچھ یوں کرتی ہیں: ’’ جزیرے کاسفر‘‘ میں مجھے ایک دو چیزیں ایسے ہی کھٹکتی ہیں مثلاً تقریباً ہر انشائیہ میں اکبر حمیدی ایک آدھ لطیفے کا تڑکا ضرور لگاتے ہیں، بعض انشائیوں میں موضوع کے بر عکس موضوع کو بھی ساتھ لپیٹ لیتے ہیں اور پھر موضوع اور بر عکس موضوع کا موازنہ کرتے چلے جاتے ہیں۔‘‘(نازیہ خلیل عباسی کے ایم فل کے مقالہ’’فرحت نواز کی ادبی خدمات‘‘کا ایک حصہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔