مِری گلیوں میں اب بارود کی بو ہے
یہ بستی سر کٹے شعلوں میں گھرتی جا رہی ہے
گھروں کوجانے والے راستوں پر
خون کی ہولی رچی ہے
جواں بیٹوں کی لاشوں سے لپٹ کر
روتی مائیں کون دیکھے اب
کہ بینائی بھی آنسو بن کے جیسے بہہ گئی ہے
زمیں سے آسماں تک بین کرتا سوگ برپا ہے
اگر تم آئے دن کی یہ قیامت روکنے پربھی نہیں قادر
تو پھر مت اوربہلاؤ
کسی اِن کیمرہ اجلاس میں اعلان فرمادو
نیا قانون نافذ ہو گیا ہے
یہاں کی سب رُتوں کو بانجھ کر دو
ہوا پھولوں سے ہم بستر نہ ہو اب
کوئی خوشبو کہیں آنکھیں نہ کھولے
کسی آنگن میں اب بچپن نہ کھیلے
جوانی سے کہو
ہر بات پر ہنسنے کی عادت بھول جائے
یہاں اب رونقیں خود کش دھماکہ ہیں
مِری گلیوں میں اب بارود کی بو ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔