اگر آپ کسی کالونی میں آٹھ سال سے رہ رہے ہوں، آپ کو یہ بھی خوش فہمی ہو کہ آپ کا مشاہدہ کافی تیز ہے ۔روز دن میں دو نہیں تو کم از کم ایک بار آپ بازار کا پھیر کرتے ہوں ، کبھی کبھی الیکشن یا کسی اور چکّر میں آپ گھر گھر ، دوکان دوکان گھومے بھی ہوں اور پھر بھی آپ کو کسی دن یہ پتہ چلے کہ اس کا کونی کی سب سے دلچسپ شخصیت کو تو آپ نے اب تک دیکھا ہی نہیں تھا تو جو آپ پر گزرے گی کچھ ویسی ہی مجھ پر بھی گزری جب بالکل اتفاق سے میری ملاقات ایک دن بابو لال سے ہو گئی۔ملاقات بھی یوں تھوڑا ہوئی کہ کسی نے تعارف کروایا۔ بات دراصل یہ ہوئی کہ میرے گھر میں صرف دو عدد کرسیاں ہیں اور ان میں سے بھی ایک کی بید، یعنی کہ جسے اب پلاسٹک کہنا چاہئے۔ وہ بالکل ٹوٹ گئی تھی اور دوسری کی بھی شکستہ ہو گئی تھی۔ بازار میں فرنیچر کی ایک ہی دوکان ہو تو اس کے مالک کا نخرہ معلوم، ایسے میں، میں اپنی گلی میں کھلنے والے دروازے پر کھڑی دُور سے جلوہ دکھاتے کسی سبزی والے کی منتظر تھی کہ بابولال کو میں نے سائیکل پر سوار گزرتے دیکھا اور جیسے ہی مجھے اس کے کندھے پر لٹکے پلاسٹک کے لچھوں کی جھلک دکھائی دی، میں نے بیقرار ہو کر اسے آوازیں دینی شروع کردیں۔ اس نے فوراً سائیکل موڑی اور قبل اس کے کہ میں اس سے کچھ کہتی وہ یوں مجھ سے مخاطب ہوا جیسے نہ جانے کب سے مجھے جانتا تھا۔ ’’ اجی‘ ج ج جے ہند……تم آواز دے درہے ہو نہ۔‘‘
’’ہاں بھئی۔‘‘ میں نے اس کی بے تکلفی پر ذرا کھسیا کے کہا، ’’آپ کرسی بُن دیں گے۔‘‘
وہ فوراً کھچڑا سائیکل میری دو سیڑھیوں پر کھڑا کر اس زور سے اندر آیا کہ میں بوکھلا کے پیچھے ہٹ گئی……اس نے سائیکل دیوار سے لگائی، کندھے پر سے پلاسٹک کے لچھّے اُتارتے ہوئے ، فرش پر اکڑوں بیٹھ گیا اور مجھے حکم دیتے ہوئے بولا،’’ کرسی نکالو، پ پ پہلے ہم دیکھیں گے۔‘‘
میں ذرا ڈر کے پوچھا ، ’’مگر آپ کو آتا ہے نہ کرسی بننا۔ باریک بننا ہے؟‘‘ اس نے میری طرف بڑی حقارت سے دیکھا،’’یہ پہ پ وچھو ہمیں کیا نہیں آتا۔ ک ک کرسی ہم بنیں، بجلی ہم ب ب بنائیں، پانی کا ن ن نل ٹھیک کریں……اورجی، اس کا کیا نام، ک ک کھانا اچھے سے اچھا پ پ پکائیں……درزی کا کام۔۔۔۔۔۔‘‘
میں نے گھبرا کے فوراً ایک کرسی باہر نکال دی،’’دیکھئے……یہ ہے، کیالیجئے گا اس کی بنوائی؟ ٹھیک بنائیے گا تو ایک اور ہے۔‘‘
اس نے ایک بار مجھے غور سے دیکھا، پھر کُرسی کے معائنے میں لگ گیا۔ پھر دیکھ دیکھ کے بولا۔ ’’ہوں۔‘‘
’’تو کیا ہوگی بنوائی؟‘‘
اس نے اوزاروںکے تھیلے میں سے ایک چمٹیا سی نکالی اور کرسی کو گھمایا، بولا،’’جس کسی نے بھی ب ب بنی تھی، اچھی ب ب بنی تھی۔‘‘
’’مگر آپ کیا دام لیں گے؟‘‘ میں نے تیسری بار پوچھا
اس نے یوں مجھے دیکھا جیسے اس کی سمجھ میں نہ آرہا ہو، میں کیا کہہ رہی ہوں، ’’پ پ پیسے کو پوچھ رہی ہو۔‘‘
میں دھیرے سے کہا، ’’ ہاں، کیا دام ہوں گے۔‘‘
وہ ہنسنے لگا، ’’اجی ، دَ دَدام کی فکر مت کرو۔ دام تو مَ مَ میں نے یہاں گلی بھر پر چھوڑ رکھے ہیں۔ ک ک کبھی آیا ، نہیں دئے۔ چ چ چلا گیا کہ جی پھر دے دینا۔‘‘
اور بس اتنا کہہ کر وہ کرسی میں جٹ گیا۔
اس کی عمر کوئی چالیس پچاس کے بیچ ہوگی، خاکی رنگ کا بہت ہی میلا، گھٹنوں پر سے پھٹنے کی حد تک گھِسا ہوا پتلون جس کے آگے والے دو بٹن کھلے ہوئے تھے ، ہرے رنگ کی قمیض یعنی کہ جو کبھی ہرے رنگ کی رہی ہوگی جس کی پوری آستین کف میں بٹن نہ ہونے کی وجہ سے کہنی کے پاس سے جھول رہی تھی، ننگے سر، سوکھا جسم، روکھے بال، جلے تانبے کا سا رنگ، بات کرتے میں تھوک کی چھینٹیں اڑاتا ہوا دہانہ ، لمبی سی ناک، طنز سے بھری ہوئی چھوٹی چھوٹی چمکتی ہوئی آنکھیں……سائیکل میں اوزاروں کا پھٹیچر تھیلا اور کئی عدد اور نہ جانے کیا لیریاں سی، سائیکل کے پاس جوتا، بے رنگ، مٹی سے بھرا جس میں رنگ برنگے چمڑے کی چیپیاں زیادہ تھیں، اور اصل جوتا کم تھا۔
میں آنگن میں پڑے ایک پلنگ پر بیٹھ کر اس کو دیکھنے لگی، کچھ دیر بعد مجھ سے رہا نہیں گیا۔ آہستہ سے بولی، ’’آپ کون ہیں مستری جی؟‘‘
اس نے میری طرف دیکھا نہیں، بنتے ہوئے جواب دیا،’’ک ک کون کیا؟ آدمی ہیں۔ م م مستری ہیں۔ ک ک کام کرتے ہیں۔‘‘
پھر ایک دم ہنس پڑا۔’’اچھا……م م میں سمجھا……میرا نام ہے بابو لال……بابو لال کے معنیٰ سمجھتی ہو؟ ب ب بابو کا بیٹا…… تم کو جے ہند تو کیا تھا……م م مسلمان ہوتا تو سلام کرتا۔ ہ ہ ہندو ہوتا تو نمسکار……م م میں نے کہا دونوں کو گ گ گولی مارو، جے ہند س س سب سے اچھا۔۔۔۔۔‘‘
میں بے انتہا شرمندہ ہوتے ہوئے بولی، ’’ یہ تو بہت عمدہ بات ہے……اچھّا کتنا کما لیتے ہیں آپ؟‘‘
’’ ب ب بہت دینے والے نے م م مجھے اتنا دیا کہ س س سمجھ میں نہیں آتا کہ رکھوں کہاں۔‘‘
میں دنگ رہ گئی……یہ پھٹیچر کپڑے، کٹے پھٹے کھردرے ہاتھ پائوں یہ ستّر جوڑ بہتّر پیوند کا جوتا۔ یہ کھچڑا سائیکل اور اس پر اَوزاروں کا چیتھڑا تھیلا……اور یہ استغنا!
’’تو پھر آپ ڈھنگ کے کپڑے کیوں نہیں پہنتے بابو لال۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اجی، ب ب بات یہ ہے کہ امیروں میںک ک کام کرتا ہوں نہ، ان کے اچھا کپڑا پہن کر جائوں تو ج ج جلتے ہیں۔‘‘
میں ایک دم ہنس پڑی ’’تو جلائیے۔‘‘
اس نے میری طرف حیران ہو کر دیکھا اور پھر زبان کی نوک نکال کر بولا، ’’نہ۔۔۔۔نہ نہ نہیں، ہم ک ک کسی کو نہیں جلاتے۔‘‘
میرے شوہر پاس ہی دیوار میں لگے تسلے کے سامنے کھڑے شیو بنا رہے تھے، دھیرے سے بولے، ’’یہ تو کوئی بڑے پہنچے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔
جب کام ختم ہو گیا تو میں دو کرسیوں کی بُنوائی ساڑھے دس روپے اس کو دینے لگی۔
وہ بولا،’’اٹھنی ب ب بیشی کیوں دے رئی ہو؟‘‘
’’تو کیا ہوا رکھ لیجئے‘‘……میں نے کہا۔
’’ن ن نہیں……ہم خ خ خیرات نہیں لیتے ، محنت کے ل ل لیتے ہیں۔‘‘ اور یہ کہہ اس نے اٹھنی کو یوں چٹکی سے پکڑا جیسے وہ کوئی بہت ہی گندی چیز تھی اور میری ہتھیلی پر رکھ دیا۔
میں اپنا سا منہ لے کر رہ گئی!
سائیکل باہر نکالتے وقت وہ بڑا بڑایا،’’ ت ت تمہارے کام میں اس کے ق ق قیمہ کو دیر ہو گئی، ب ب بیٹھی ہوگی انتظار میں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کون؟ آپ کی بیوی؟‘‘
’’ن ن نہیں جی، وہ میری ب ب بلّی……روز اس کے لیے ق ق قیمہ لاتا ہوں ناں، وہ یہی کھ کھ کھاتی ہے۔۔۔۔ن ن نہیں لاتا ہوں تو خ خ خفا ہو جاتی ہے۔‘‘
جب وہ روانہ ہونے لگا تو میں نے کہا،’’بابو لال……آپ کہاں ملتے ہیں ، کبھی کوئی کام ہو تو۔۔۔۔۔‘‘
’’اجی ، وہ سبزیر والا سردار ہے نا، وہیں میری دَ دَ دکان بھی ہے۔۔۔۔۔ ج ج جے ہند‘……اور وہ فوراً بائیسکل پر بیٹھ کر نو دو گیارہ ہو گیا۔
واضح رہے کہ اس پوری گفتگو میں وہ مجھے برابر تم‘ کہتا رہا، میں اسے آپ کہتی رہی۔ دو تین دن بعد ایک روز شام کو میں بازار گئی تو سب سے پہلے سبزیر والے سردار کی دوکان پر گئی اور میں نے دیکھا کہ اس سے دو ہی چار قدم دُور ایک ٹاٹ زمین پر بچھا ہے اور اس پر کچھ عجیب و غریب چیزیں ملی جلی رکھی ہیں۔ مـثلاً بچوں کے رنگ برنگے پلاسٹک کے کھلونے ، کیلیں اور پیچ، تالے، کنجیاں، بیحد خراب چھپی ہوئی جنتریاں ، گھٹیا قسم کا خضاب، سائیکل کی پرانی گدّیاں، چورن کر پڑیاںربڑ کی منّی منّی چپلیں، چاندی یا کسی چمکتی دھات کے انگوٹھی چھلّے……اور پتہ نہیں کیا کیا الّم غلّم……منظر یہ تھا کہ ایک تو بابو لال کھڑا تھا، دوسرے ایک خوب صورت سی مگر غریب سی نوجوان ماں کھڑی تھی اور تیسرا ایک سال بھر کا منا سا بچّہ تھا جو اپنی ماں کی کمر پر لٹک رہا تھا……اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا رنگین پلاسٹک کا جھنجھنا تھا، ماں اس سے وہ جھنجھنا لینے کی کوشش کر رہی تھی اور بابو لال ماں کو لیکچر دے رہے تھے۔’’ابی، ت ت تمہارا بچّہ مچھے پ پ پیارا لگ رہا ہے تو تو م م میں دے رہا ہوں۔‘‘
ماں نے کہا ’’مگر بھیّا میں اتنا مہنگا تو نہیں لے سکتی۔‘‘
بابو خفا ہو کے بولے،’’تودو دام تم سے کون مانگ رہا ہے۔دَ دَ دام سسرے کا کیا ہے، دینے والے نے م م مجھے اتنا دیا ہے، س س سمجھ میں نہیں آتا، رکھوں کہاں۔‘‘
میں نے آگے بڑھ کر دھیرے سے کہا،’’ بابو لال جی، کل ذرا آ جائیے گا۔ کچھ بجلی کی چیزیں بنا دیجئے گا‘‘……میری بات ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک سفید سیاہ چیتوں والی بلّی پڑی کی آڑ سے نکل آئی۔ وہ میری بات سننے کے بجائے بلّی کی طرف مخاطب ہو گیا۔’’ ک ک کل میں ان کے گھر جائوں گا، س س سامان ٹھیک کرنے……رَ رَ روئیو مت‘‘……پھر مجھے حکم دیتا ہوا بولا،’’ن ن نکال رکھنا سامان……کبھی ب بی بارہ ایک بجوادو……پ پ پھر میری بلّی کے ق ق قیمہ کو دیر ہو جاگی۔‘‘
اگلے دن وہ صبح آٹھ ہی بجے آگیا۔ میں نے کئی ایک بگڑی ہوئی چیزیں اس کے سامنے رکھ دیں……گیارہ بجتے بجتے اس نے سب بنادیں اور پیسے لے کر جا ہی رہا تھا کہ میرے شوہر آگئے اور بولے،’’ارے بھئی مستری جی آپ کا بہت شکریہ جو آپ نے یہ سب کام کر دیا مگر یہ بھی بتائیے کہ یہ سب چلیں گی کتنے دن؟ گارنٹی کیا ہے؟‘‘
وہ بڑے طنز سے مسکرایا،’’ اجی گ گ گارنٹی تو رب نے آدمی کی بھی نہیں دی کہ ک ک کتنے دن چلے گا……ج ج جے ہند۔‘‘
اس فلسفیانہ تاویل پر ہم دونوں میاں بیوی دم بخود رہ گئے! پھر تو یہ ہونے لگا کہ میں بازار آتے جاتے اس کی دوکان پر ضرور حاضری دیتی ہوں مگر وہ اکثر وہاں نہیں ملتا……دوکان کھلی ہوئی ہے، ایک بلّی بیٹھی اونگھ رہی ہے دو تین کتّے کے پلّے ، کوئی ٹہل رہا ہے، کوئی بنچوں پر تھوتھنی جمائے سو رہا ہے۔ ایک دن وہ مجھے مل گیا تو میں نے کہا،’’بابو لال جی، آپ کوئی خاص وقت طے کر لیجئے اسی وقت دکان پر بیٹھا کیجئے۔ ہم آتے ہیں، چلے جاتے ہیں ، کچھ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس وقت آپ ملیں گے۔‘‘
وہ برا مان گیا، ’’اجی واہ ، ہ ہ ہم کیا کوئی سرکاری نوکر ہیں جو ٹ ٹ ٹیم پر ڈیوٹی دیں، ہم بادشاہ ہیں، ب بہ بادشاہ……ج جی میں آیا آئے ن ن نہیں آیا نہیں آئے۔‘‘
اب آپ ہی کہیئے میں اس بات کا کیا جواب دے سکتی تھی!
ایک دن وہ میرے یہاں پانی کا نل ٹھیک کرنے آیا تو میں نے یونہی اس سے پوچھا،’’ بابو لال آپ کیا ہمیشہ سے ہکلاتے ہیں یعنی کہ کیا بچپن سے۔۔۔۔‘‘
وہ نل کھول کر اس میں نیا واشر لگارہا تھا، بولا’’ک ک کام کرلوں تو بتائوں‘‘…… اس نے واشر کو اپنی جگہ پر بٹھا کر اس پر ٹونٹی رکھی، اسے کسا اور پھر بولا،’’اب دیکھوں۔‘‘
اور یہ کہہ کر اس نے دھیرے سے نل کھولا، پانی کی دھار بالکل برابر سے گرنے لگی……اور پھر اس نے نل کو خوب کھول دیا……پانی کی دھار زوروں میںگرنے لگی، وہ خود بھی بھیگ گیا، مجھ پر بھی چھینٹے پڑے اور غسل خانے کے فرش پر تو خیر بالکل ہی سیلاب آگیا۔
’’لو بولو‘‘……وہ میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔
میں اس کا منہ تکنے لگی، وہ سمجھ گیا کہ میں کچھ نہیں سمجھی، ہنسا اور اپنے سر کو ایک انگلی سے ٹھونکتا ہوا بولا،’’ ج ج جن لوگوں کے یہاں باس رہتا ہے ، وہ دَدَ دھیرے بولتے ہیں۔۔۔اور جو دَ دَ دماغ کھلا ہو تو۔۔۔۔۔‘‘
میں نے سر ہلا کے کہا،’’ میں سمجھ گئی مستری جی، آپ کا دماغ زیادہ تیز دوڑتا ہے، زبان اتنی تیز نہیں دوڑ نہیں سکتی، بس ٹھوکر کھا جاتی ہے، ہے نا؟‘‘
وہ خوش ہو کے بولا،’’ہاں ہاں ، ب ب بس‘‘……ج ج جے ہند۔‘‘
ابھی دو تین دن ہوئے کوئی مغرب کا وقت ہوگا جو میں بازار گئی، وہاں اس وقت خوب چہل پہل تھی، موٹروں، اسکوٹروں اور دیگر سواریوں کا غل، دکانداروں، چھابڑی والوں کی صدائیں ، لوگوں کی چیخ و پکار……اور اس سب کے بیچ میں بابو لال اپنی دوکان کے ٹاٹ پر، ایک ہاتھ کا تکیہ بنائے، گھٹنوں کو پیٹ میں سکیڑے غافل سو رہا تھا۔ بلّی اس کے سینے سے لگی آرام کر رہی تھی، سرہانے ایک کتّا بنچوں پر تھوتھنی جمائے اونگھ رہا تھا۔ اور پائوں کے پاس دو منّے منّے پلّے یوں ایک دوسرے سے لپٹے پڑے تھے جیسے دوسروں والا کتّا ہو،……دوکان کا سامان اسی طرح، ذرا آگے کو رکھا تھا……آدھا ٹاٹ پر اور آدھا زمین پر۔ کوئی چاہتا تو سب کچھ جھاڑلے جاتا۔میرا بے اختیار دل چاہا کہ اس کے نزدیک جائوں اور آہستہ سے اس سے کہوں۔’’ بابو لال تم واقعی بادشاہ ہو……بھلا بادشاہوں کو بھی یہ نیند کہاں میّسر؟ یہ تو اسی کا حصّہ ہے جس کے دل میں قناعت کا نور ہو، سر میں ہنر اور محنت کا غرور، پھر وہ چاہے چیتھڑے میں لپٹا ہو مگر وہ بادشاہ نہیں تو پھر کون بادشاہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔