جو موجِ بغاوت بھی ہو تحلیل کروں گی
میں آپ کے ہر حکم کی تعمیل کروں گی
معصوم بہت تھی سو ہمیشہ یہی سوچا
خوشبو سے میں حالات کو تبدیل کروں گی
پہچان گنوا بیٹھوں گی سوچا ہی نہیں تھا
چاہا تھا ادھورا ہے میں تکمیل کروں گی
چوموں گی محبت سے سدا تیشہ ہنر کا
پتھر سے گلابوں کی جو تشکیل کروں گی
ابلاغ کا ہر رنگ مکمل ہو سخن پر
خوشبو کی طرح لفظ سے ترسیل کروں گی
ترتیب الٹ جائے گی ساری مرے گھر کی
اک روز اگر ہفتے میں تعطیل کروں گی
اس آس پہ تم لطف کا اک زاویہ کھینچو
تادیر بیاں اس کی میں تفصیل کروں گی
تم جیسے بھی توضیح کرو اپنی خطا کی
پیش اپنے ہی انداز میں تاویل کروں گی
شبنم گل ِ تازہ پہ اثر کرتی ہے جیسے
اس دل پہ جیا ؔ ایسے میں تنزیل کروں گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔