سوچ رہا ہوں میں دل کی گہرائی سے
سمٹے گی یہ دنیا اک انگڑائی سے
ان کی یادیں میرا پیچھا کرتی ہیں
میں ملتا ہوں جب اپنی تنہائی سے
کب آوارہ لہریں مجھکو لے ڈوبیں
’’ڈر لگتا ہے دریا کی انگڑائی سے‘‘
چاند ستارے سب میری مٹھی میں ہیں
میں پہنچا اونچائی میں دانائی سے
روتے روتے میری آنکھیں سوکھ گئیں
اب شکوہ کیسا میرا بینائی سے
دھول کی بارش ہوتی ہے صحرائوں میں
جل جائے گا جسم ترا پروائی سے
ؔ ناز بہت تھااونچائی پر جس کو اصغرؔ
گر کر وہ بھی ٹوٹ گیا اونچائی سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔