پورے کمرے میں گہری چپ چھائی ہوئی تھی لیمپ کی ادھ جلی روشنی میں کمرے کی ہر چیز واضح طور پر نظر آرہی تھی۔ کمرے کی ایک کھڑکی کھلی ہوئی تھی جس سے گزر کر اندر آنے والی سرد ہوا کے جھونکوں سے سرخ رنگ کا پردہ ہل رہا تھا۔چھت کے عین وسط میں لٹکے ہوئے پنکھے کی رفتار ڈھیلی معلوم ہورہی تھی۔ اور پنکھے کے نیچے پڑے ہوئے پلنگ پر خاور سویا ہوا تھا۔ جس کے دونوں ہاتھ سینے پر تھے۔ اس کی حالت خلاف معمول غیر تھی۔ اس کی بند آنکھیں جھپک رہی تھیں۔ اور پیروں میں جنبشِ تھی ، وہ مسلسل پیروں کی انگلیوں کو ایک دوسرے سے مسل رہا تھا۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ نیند میں اس نے کوئی گناہ کیا ہے جس کی وجہ سے سزا کے طور پر۔ اور بیچ بازار میں بادشاہ کا سنتری اسے کوڑے مار رہا ہے اچانک ہوا میں تیزی آنے سے کھڑکی کا ایک پٹ دوسرے پٹ سے ٹکرایا جس سے تڑاخ کی ایک بھر پور آواز کمرے کی خاموش فضامیں گونجی جس سے خاور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔۔۔ خاور کا پورا جسم کانپ رہا تھا ماتھے پر پسینے کے چند قطرے منجمد تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلنگ کے سائیڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے موبائل کو اٹھایا تو اسکرین پر ڈھائی بجے کا وقت جگمگا رہا تھا۔۔۔خاور پلنگ سے اٹھا اور پلنگ کے نزدیک ہی پڑی شیشے کی ٹیبل پر پڑے جگ کی طرف بڑھا اور گلاس اٹھا کر آدھا گلاس بھرا اور ایک ہی سانس میں غٹک گیا۔۔۔نیند اس کے ذہن سے خیال کی طرح زائل ہوچکی تھی۔ اکتوبر کے مہینے میں جب کہ سردیاں دبے پاؤں شہروں کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ اسے کچھ گرمی محسوس ہوئی۔ ایک بے چینی نقاہت اور مایوسی کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں ہوگئے کمرے میں اسے چیزیں کافی دھندلی غیر واضح دکھائی دے رہی تھیں۔ سگریٹ کی ڈبیا سے ایک سگریٹ نکال کر منہ میں رکھا اور سلگا کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔ ٹہلتے ٹہلتے اسے یوں محسوس ہوا جیسے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں کوئی ہے جو اس پر ہنس رہا ہے وہ ٹہلتے ٹہلتے آئینے پر اچٹتی نگاہ ڈال کر قدم بڑھاتے ہوئے سٹ پٹا گیا۔ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں اسے اپنا عکس نظر آیا جو ہنس رہا تھا وہ سگریٹ منہ میں دبائے سوچتا رہا کہ وہ اس کا سامنا کرے یاپھر اگنور کردے ۔ آخر کار وہ خود کو مجتمع کر کے دھڑکتے دل کے ساتھ آئنے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اس کا وہم اب حقیقت کا روپ دھار چکا تھا اور آئینہ میں واقعی اسی کا ہی عکس موجود تھا جو اس پر خندزن تھا۔کچھ دیر یوں ہی اسے دیکھتا رہا اور اس کو یوں محسوس ہوا کہ مسلسل دیکھنے سے اس کا خوف زائل ہوتا جارہا ہے۔ کچھ ثانیے بعد وہ منہ موڑ کر قدم بڑھانے لگاتو پیچھے سے آواز آئی اور خاور کا دل دھڑک کر رہ گیا۔ وہ خوف جو آہستہ آہستہ معدوم ہوگیا تھا اب سانپ کی طرح پھر سر اٹھانے لگاتھا۔
’’کدھر میاں ؟‘‘۔ آئینے میں کھڑے عکس نے مسلسل مسکراتے ہوئے کہا۔ خاور کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا اور وہ آئینے کے سامنے گنگ اور منجمد کھڑا رہا۔
’’کیوں ڈر گئے؟‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ خاور کے منہ سے بے خبری میں نکل گیا
’’مطلب خود سے ڈر گئے؟‘‘
’’نہیں۔ خواب سے ‘‘
’’کیا دیکھا خواب میں؟‘‘
’’کہانی۔۔‘‘ خاور یوں جواب دیتا رہا جیسے وہ آئینے میں موجود عکس کے ہاتھوں ہپنوٹائز ہو چکا ہو۔
’’کیا خواب میں کہانی دیکھی جاسکتی ہے؟‘‘
’’ہاں۔ کیوں نہیں۔ میں نے دیکھی ہے‘‘ خاور نے ادھ جلا سگریٹ ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ پڑے ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔
’’اچھا۔ کیسی تھی۔ ؟ ‘‘
’’بڑی خوبصورت مانوس یوں لگ رہا تھا کہ صدیوں پہلے اس سے کوئی رشتہ تھا ایک لمبی عمر اس کے ساتھ گزر چکی ہو۔ یوں لگ رہا تھا کہ اکیلے رستوں پر اس کا ہاتھ تھامے چل چکا ہوں ۔اک منزل کی طرح معلوم ہورہی تھی جس کی چاہت تو کی جاسکتی ہے مگر اس کو سر نہیں کیا جاسکتا‘‘خاور بڑے مدھم لہجے میں بولتا چلا گیا۔
’’کہانی نے کونسے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے؟‘‘
’’اس نے کالے کپڑے پہن رکھے تھے اور سر پر دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا‘‘۔
’’تمھیں کس حالت میں دِکھی؟‘‘
’’میں نے جب آنکھ بند کی تو میرے ذہن میں خواب کی کھڑکی کھلی اور اس میں مجھے وہ نظر آئی اس کا چہرہ زرد تھا۔ رنجیدگی اس کے چہرے پر واضح نظر آرہی تھی‘‘۔
’’اچھا تو اس نے کچھ بولا تم سے ؟‘‘
’’نہیں۔۔۔وہ چپ تھی لیکن وہ بولنا چاہتی تھی ۔یوں لگ رہا تھا وہ کچھ بولنا چاہتی ہو۔شاید اسے مجھ سے کچھ شکایت تھی اس کا خاموش لہجہ کرب سے بھرا ہوا تھا‘‘۔
’’کیا وہ تم سے ناراض تھی؟ ‘‘
’’ہاں۔۔پرنہیں۔۔وہ۔‘‘خاور مخمصے میں پڑگیا اور فیصلہ نہ کر سکا کہ کیا بولے۔
’’اگر وہ مجھ سے ناراض تھی تو کیوں تھی؟ میں تو ہر گزرتے لمحے اسے یاد کرتا رہتا ہوں۔۔۔اس کو لکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ہاں یہ بات الگ ہے کہ الفاظ کے پرندے میرے ہاتھ نہیں آتے ‘‘
’’اچھا ! تم نے اسے کہاں دیکھا ؟‘‘
’’مجھے اتنا تو یاد نہیں کہ کہاں دیکھا لیکن جب میں نے دیکھا تو وہ کسی ایسے فٹ پاتھ پر کھڑی تھی جو کسی بھی روڈ سے منسلک نہیں تھا۔اس کی آنکھوں سے اذیت جھلک رہی یوں لگ رہا تھا کہ وہ کسی واسطے یا ذریعے کی منتظر ہو جو اس کو مطلوبہ منزل تک پہنچا دے ۔‘‘
’’کیا اس نے تمھیں دیکھا تھا؟ ‘‘
’’ہاں اس نے مجھے دیکھا تھا۔مجھے دیکھنے کے بعد اس کی آنکھوں میں اور اذیت بھر گئی تھی‘‘۔
’’کسی کا انتظار تھا اسے ؟‘‘
’’معلوم نہیں‘‘۔
’’کیا وہاں کوئی آیا تھا؟‘‘
’’ہاں۔۔یاد آیا وہاں کوئی آیا تھا‘‘
’’کون تھا وہ ؟‘‘
’’معلوم نہیں ‘‘۔
’’کیسا دِکھتا تھا ؟‘‘
’’دِکھنے میں تو لکھاری لگ رہا تھا پر اسکی عینک کا دایاں عدسہ ٹوٹا ہوا تھا اس کے ہاتھوں میں ایک گٹھڑی بھی تھی ‘‘۔
’’کیا کہانی اس کے ساتھ چلی گئی ؟‘‘
’’ہاں چند لمحے بعد وہ میری طرف دیکھے بغیر اس لکھاری کے ساتھ چل پڑی اور نظروں سے اوجھل ہوتی گئی ‘‘۔
’’لگتا ہے یہ اس لکھاری کی کہانی تھی اورتم نے ضرور اس پر بری نگاہ ڈالی ہوگی ۔‘‘
’’نہیں یہ کہانی اس لکھاری کی نہیں تھی‘‘۔
’’تم اتنا وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘
’’کیونکہ جیسے ہی اس کے ساتھ چل پڑی تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔‘‘
’’کیا پتہ اتنی صدیوں کے انتظار کے بعد اس کے حاصل ہوجانے پر بے ساختہ اس کی آنکھیں چھلک پڑی ہوں۔‘‘
’’نہیں ایسا نہیں ہوسکتا، اگر تحصیل کی بات ہے تو لکھاری کے لئے جذباتی ہونا چاہئے تھا ناکہانی کو، کہانی تو اک الہام ہوتی ہے ،اعزاز ہوتی ہے، تاریخ ہوتی ہے ،کسی محبت کی امین ہوتی ہے اور کہانی کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اسے کوئی بد اخلاق اور بے ڈھب لکھاری مل جاتا ہے ۔‘‘
’’تم کیا کہنا چاہتے ہو ،وہ بھی کسی غلط لکھاری کے ہتھے چڑ ھ گئی ؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’ایک طرف تم کہتے ہو کہانی تم سے ناراض تھی دوسری طرف یہ کہ جو لکھاری اسے ملا وہ کہانی کی آرزو کے برعکس تھا تو پھر کیا اب بھی کسی اور لکھاری کی گنجائش باقی تھی جس کی حسرت اس کرب ناک نظروں سے جھلک رہی تھی۔۔بتاو ٔ؟‘‘
’’بالکل وہ کہانی کسی اور لکھاری کے قلم کی سیاہی سے تکمیل پانا چاہتی تھی۔۔کسی ایسے لکھاری کے ہاتھوں جس کو دیکھتے دیکھتے وہ جوان ہوئی، عہد شباب کو پہنچی ،اس کا حسن صبر کی بھٹی میں جل کر کندن بن چکا تھا پھر
وہ کہانی بھاگی کیوں نہیں؟اسے چھپ جانا چاہیے تھا جبکہ اس لکھاری سے پہلے تم موجود تھے تمھارے تخیل کی پناہ میں آجاتی۔‘‘
’’اسی بات کا تو ملال ہے یہی بات تو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ مجھ سے اتنی کھنچی کھنچی اور اکھڑی ہوئی کیوں تھی ،یا شاید میرے پاس وہ الفاظ نہیں تھے جس سے وہ تکمیل پانا چاہتی تھی۔ یا پھر اس لئے ناراض تھی کہ اس تک پہنچتے پہنچتے دیر کردی تھی میں نے اور اس طرح وہ انجان بے معنی کتابِ زیست کا ورق بن کر رہ گئی۔‘‘ ۔۔۔اچانک کمرے کی فضا سے اندھیرے کی چادر گر پڑی اور آئینہ بغیر آواز کیے ٹوٹ گیا۔ سیدھے لیٹے ہوئے خاور کی آنکھ کھل گئی۔ کھڑکی بند تھی چھت پر کوئی پنکھا نہیں تھا صرف سیلنگ نما چھت میں چند سفید بلب نصب تھے ہر طرف دودھیا روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔
خاور نے سائیڈ ٹیبل سے موبائل فون اٹھایا اور لیٹے لیٹے وقت کو دیکھا تو ڈھائی بجے کا وقت بدستور جگمگا رہا تھا اس کے علاوہ خاور کے ماتھے پر پسینہ کے چند قطرے ماتھے پر موجود تھے اس کے جسم پر کپکپی طاری تھی وہ نیم دراز ہو کر پلنگ سے ٹیک لگائے بیٹھ گیا۔ اور کمبل اوڑھ کر مسلسل سامنے والے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کو تکتا رہا۔ جو بالکل خاموش اور پر سکون تھا کہیں سے بھی شکستہ نظر نہیں آرہا تھا خاور کو لگا کہ جیسے اس آئینے سے اب آواز آرہی ہو مجھے لکھ لو میں کہانی ہوں۔۔۔ایسا نہ ہو پھر دیر ہو جائے اور تم مجھے لکھنے سے محروم رہ جاؤ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔