پروین شاکرعصرِ حاضر کے شعراء میں ایک اہم حیثیت کی حامل ہیں۔ان کی بے وقت موت نے ان کی شہرت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ان کا عورت ہونا،خوبصورت ہونااور پھر خوبصورت شاعری کرنا، ان سارے عوامل نے مل کر انہیں شہرتِ عام عطا کردی۔ایک اور اہم سبب جس نے پروین شاکر کو پروین شاکر بنایا،وہ احمد ندیم قاسمی صاحب کی خاص توجہ اور دستِ شفقت ہے۔ یوں نہیں ہے کہ جسے بھی قاسمی صاحب خصوصی توجہ دیدیں وہ بڑی شاعرہ بن جائے گی ۔اس کے لئے اپنے اندر ویسی صلاحیتیں ہونا بھی ضروری ہے۔اسے پروین شاکر کی خوش قسمتی کہہ لیں کہ انہیں قدرت کی طرف سے صلاحیتیں ودیعت کئے جانے کے ساتھ مناسب ماحول اوروسائل بھی میّسر آگئے اور قاسمی صاحب کا دستِ شفقت بھی مل گیا۔یہ سب کچھ سونے پر سہاگے جیسا تھا۔
پروین شاکر نے جب شاعری شروع کی تب ادا جعفری ، کشور ناہید اورفہمیدہ ریاض جیسی شاعرات پہلے سے موجود تھیں۔ادا جعفری اپنے ڈھب کی اچھی شاعرہ ہیں لیکن پروین نے ادا ؔکی بجائے کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض کے انداز کو اپنایا۔ان دونوں شاعرات نے شاعری میں وہی کچھ کیا تھا جو افسانے میں عصمت چغتائی کرچکی تھیں۔بے باکی اور کھلے پن کے ساتھ ایسے بات کرنا کہ بات کی تیز روشنی میں مرد حضرات کی آنکھیں چندھیا جائیں۔انہیں کچھ دکھائی ہی نہ دے اور یہ مردوں کی حالت سے لطف اٹھاتی رہیں۔پروین شاکر نے انداز تو ان کا اپنایا لیکن اپنے رستے خود تراشے۔مرد حضرات کی آنکھوں میں تیز روشنی مارنے کی بجائے عورت کے جذبات کو نرم اور ملائم انداز سے پیش کرکے ان کیفیات کو روشن کیا۔یوں پروینؔنے کھردری اور نثر نما شاعری کرنے کی بجائے صنف نازک کے لطیف جذبات اور احساسات کو بہت ہی نفاست اور خوبصورتی کے ساتھ اور کسی حد تک باریک پردے کے ساتھ پیش کیا۔یہی وجہ ہے کہ وہ شاعرات میں اپنی پیش روؤں سے کہیں آگے نکل گئیں۔
پروین شاکر کے ہاں کہیں کہیں اتفاقیہ توارد کی مثالیں بھی مل جاتی ہیں۔اس وجہ سے ان پر اعتراض بھی ہوئے۔ایک نظم ’’بچہ اور جگنو‘‘ میں بچے اور جگنو میں مکالمہ ہوتا ہے۔جگنو کو بچے نے اپنی مٹھی میں پکڑ رکھا ہے ۔جگنو بچے سے منت کرکے کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ دو اور بچہ کہتا ہے:
کروں گا نہ آزاد اس وقت تک
کہ میں دیکھ لوں دن میں تیری چمک
یہ نظم پرائمری کلاس کے نصاب میں شامل رہی ہے(شاید ابھی بھی کسی کلاس میں شامل ہو)پروین شاکر نے شاید بے خیالی میں اسی خیال کو دہرا دیا:
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
بچوں کی چالاکی اپنی جگہ لیکن اسے پروین شاکر کی مقبولیت کا کمال سمجھیں کہ کسی کا اصل کی طرف دھیان ہی نہیں گیا اور آج یہ شعر پروین شاکر کے مقبول ترین اشعار میں شمار ہوتا ہے۔شاعری میں ایسی باتیں ایک حد تک چل جاتی ہیں لیکن مجھے اس توارد پر ہمیشہ حیرت رہی ہے کہ شکیب جلالی کے مجموعہ’’روشنی اے روشنی‘‘ کی پہلی غزل کے الٹ مضامین کے ساتھ پروین شاکر نے ایک غزل کہی اور اسے پورے ’’اعتماد‘‘ کے ساتھ اپنے مجموعہ ’’صد برگ‘‘میں پہلی غزل کے طور پر شائع کیا۔ دونوں غزلیں مذکورہ مجموعوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔اس وقت مجھے دونوں کا جو ایک ایک شعر یاد آرہا ہے درج کر رہا ہوں:
یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک
کوئی نہ سہ سکے لہجہ کرخت ایسا تھا
(شکیب جلالی)
مرے لئے تو وہ خنجر بھی پھول بن کے اٹھا
زبان سخت تھی ،لہجہ کبھی کرخت نہ تھا
(پروین شاکر)
اس کے باوجود پروین شاکر کا مجموعی کنٹری بیوشن اتنا اہم ہے کہ اردو کی نسائی شاعری میں وہ سب سے بلند قامت ہیں۔انہوں نے نئی شاعرات پر شعوری سطح پر بھی اورلا شعوری سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے۔ان کی مقبولیت کا ایک منفی رخ حال ہی میں میرے علم میں آیاہے۔میں انٹر نیٹ پر ایک ویب سائٹ’’ونڈر فل ورڈ آف اردو پوئٹری‘‘دیکھ رہا تھا۔مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس میں لوگوں نے سب سے زیادہ پروین شاکر کو پسند کیا تھا لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ تقریباََ سب نے ایک ہی غزل کو پسند کیا تھا’’وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھرجائیگا‘‘ ۔۔۔۔۔ظاہر ہے یہ غزل شاعرہ پروین شاکر کی وجہ سے زیادہ گلوکارہ کی وجہ سے مقبول ہوگئی ہے۔اسی وجہ سے میں اسے شاعر کی مقبولیت کا منفی رخ سمجھتا ہوں ۔ان چھوٹی موٹی باتوں سے قطع نظر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پروین شاکر نہ صرف نسائی شاعری کی سب سے بلند قامت شاعرہ ہیں بلکہ عہدِ حاضر کے مجموعی شعری منظر نامہ میں بھی ان کا ایک اہم مقام بنتا ہے۔ وہ نسائی شاعری کی آن ہیں تو مجموعی شعری منظر نامہ میں بھی ان کی شاعری کی اپنی ایک شان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔