میں اپنے غم چھپانا چاہتی ہوں
ذرا سا مسکرانا چاہتی ہوں
تمہارے ہاتھ سے گر کر اچانک
میں اک دن ٹوٹ جانا چاہتی ہوں
تجھے میں سامنے سے سوچتی ہوں
تجھے میں غائبانہ چاہتی ہوں
نہ جاؤ توڑ کر عہدِ وفا کو
میں دلبر مخلصانہ چاہتی ہوں
تو میری عمر بھر کی ہے ریاضت
تجھے میں اجرتانہ چاہتی ہوں
تو میری اوڑھنی پہ گیروا سا
تجھے میں صوفیانہ چاہتی ہوں
میں دریا ہوں،سمندر وہ،ثمینہؔ
میں اس میں ڈوب جانا چاہتی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔