یہ رقصِ شامِ غم ہے اور مَیں ہوں
محبت محترم ہے اور مَیں ہوں
پہاڑوں پر پرندے جاگتے ہیں
دعائے صُبحِ دم ہے اور مَیں ہوں
مِرے ہونٹوں پہ اِک حرفِ دعا ہے
تِری چشمِ کرم ہے اور مَیں ہوں
سَرساحل یہ بِکھری سیپیاں ہیں
ہَوائے تازہ دَم ہے اور مَیں ہوں
کِسی کی یاد کے تنہا سفر میں
یہ میری چشمِ نم ہے اور مَیں ہوں
بدن پر بَین کرتی خامُشی ہے
تِری مشقِ ستم ہے اور مَیں ہوں
دِیئے آنکھوں کے, بُجھتے جا رہے ہیں
کوئ شہرِ الم ہے اور مَیں ہوں