وہ جو ابھی تک خاک میں رُلنے والے ہیں
سُچے موتیوں میں اب تلنے والے ہیں
اپنی ذات کے دروازے تک آپہنچے
بھید ہمارے ہم پر کھلنے والے ہیں
دودھ بدن ہے وہ تو مصری کوزہ ہم
سو اب اُس کے عشق میں گھلنے والے ہیں
واقفیت ہے اِن سے اپنی برسوں کی
دُکھ تو ہمارے ملنے جلنے والے ہیں
آنکھیں اس کی بھی ہیں اب برسات بھری
حیدرؔ مَیل دِلوں کے دُھلنے والے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔