''باپ کے ہاتھ سے غصہ،سرزنش اور تشویش رس رس کر زینو کا سرنم کررہی تھی۔''
وحید احمد کا ناول '' زینو'' میرے ہاتھ میں ہے۔ اس ناول کو پڑھنے کا آغاز کیا اور د ل گرفتگی کی فضا نے اک مسحور کن ماحول کا ایسا شامیانہ کھینچا کہ اس سے باہر جانے کی جسارت نہ ہی ہوتی ہے اور نہ ہی دل کرتا ہے۔ ابتدائی اوراق میں ہی تحریر شدہ یہ جملہ پڑھا اور اس جملے کی حساسیت نے بار بار اس سطر کو پڑھنے،دیکھنے اور پرکھنے کی دعوت دی اور جب اسی تناظر میں، میں نے مشاہداتی فارمولے کو تقویت کے قدموں پر کھڑا کیا،تو معلوم ہوا کہ وحید احمد کا جاندار اسلوب ان کی ناول نگاری کے فن میں اک ہنروارانہ پیشکش ہے۔ تاریخی واقعات کو مرتب کرتے وقت جس فن کارانہ صناعی اور صناعانہ حسن کی ضرورت ہوتی ہے اور جس کی بدولت واقعات میں ایک منطقی ربط قائم رہتا ہے،وحید احمد ان تمام حربوں سے واقف اور آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال پر بھی کامل عبور رکھتے ہیں۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنا کثرت مطالعہ کے بغیر ممکن نہیں ہے اور مطالعہ کی کثرت کو سلجھاؤ کے ذریعے دلچسپ بنانا اور جاندار اسلوب کے ذریعے جاودانی کے رنگ بھرنا اک ہنروری ہے اور ''زینو'' کے ورق ورق میں وحید احمد کی یہ خاصیت پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ناول'' زینو'' فلسفہ،حکمت،دانش اور عقلی نظریات سے بھرپور ہے۔ فلسفیانہ مباحث، مکالمے،مناظراتی کیفیات،مباحثانہ تکرار،مدلل بیانیے،استدلالی گفتگو،عالمانہ فصاحت،حکیمانہ بلاغت،جوشِ خطابت،علمی گفت وشنید کی کثرت سے مالا مال ہے۔وحید احمد نے اپنے زور ِمطالعہ سے ان مباحث میں علمی شان بھری ہے اور حقیقت کے رنگوں کی دلفریب آمیزش سے بے مثل اسلوب بیان کے ذریعے مسحور کن کیفیات کا سراغ لگایا ہے، دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اسلوب کی دلکشی نے کہیں بھی قاری کو بوریت کے راستوں پر گامزن نہیں ہونے دیا۔ بلکہ انتہائی ہمواری سے ناول کے علمی مباحث کو فلسفیانہ دانش کے حسن میں لپیٹ کر دلچسپ،موزوں، پراثر اور جاذب توجہ بنا ڈالا ہے۔یہ ہی ناول کا اصل کمال اور وحید احمد کا انفرادی رنگ اور امتیازی وصف ہے۔
''زینو'' میں کہانی کے واقعات ایک ربط و تسلسل کے ارتقائی مراحل سر کرتے جاتے ہیں۔پچیس،تیس صدیوں کے قصے کے واقعات کو مربوط رکھنا اک ہنر مندانہ صلاحیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔زینو بحیثیت ایک کردار قدیم یونان سے اپنا سفر کرتے ہوئے جدید بلکہ جدید ترین دور میں قدم رکھتا ہے اور قاری اپنی آنکھوں سے صدیوں کا یہ سفر طے کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے مگر کہیں بھی ناول دولخت ہونے کا جرم اور الزام اپنے سر نہیں لیتا۔کمال مہارت سے قدامت کی جدت کے ساتھ ایک ایسی پیوندکاری کی گئی ہے کہ دونوں اطراف قاری کو ہر لحاظ سے جڑے ہوئے ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آتے ہیں۔زینو سکندر اور دارا سے مکالمہ کرتے ہوئے پچیس سو سال بعد موجودہ سائنسی اور معاشی دور میں داخل ہوجاتا ہے۔ یوں ناول اپنے موضوع میں تقابل،موازنے اورمقابلے کی دلچسپ فضا قائم کرتا ہے۔جہاں ادوار کا اختلاف ، حالات کا اختلاف اور کرداروں کا اختلاف ہے۔واقعات کی سنگینی اور نتائج کی تلخی میں یکسانیت، دو طرح کے ماحول کی بھرپور عکاسی اور دو رنگوں کو اپنی کاملانہ رعنائیوں کے ساتھ پیش کرنا اور ہر رنگ کے اثر کو پراثر بنادینا یقیناً وحید احمد کے طرز بیان کا کمال ہے۔وحید احمد نے ایسا دلکش پیرایۂ بیان رکھا ہے کہ نہ ہی ناول الف لیلوی اور دیو مالائی قصہ بن کر اساطیری خزینہ بنا ہے اور نہ ہی اسے جدید سائنس فکشن کے ذریعے آلودہ کیا گیا ہے۔یوں اس ارتقا کو وحید احمد نے ایک حقیقت پسندانہ ارتقا بنا دیا ہے اور کوئی بھی واقعہ بعید از حقیقت ہو کر ماورائیت یا غیر ارضی نہیں ہو رہا۔زینو کے علمی مکالمے اگر ایک طرف اپنے باپ، ماں،سکندر،دارا یا دوسرے کرداروں کے ساتھ جاری رہ کر ناول کی علمی فضا کو چار چاند لگا رہے ہیںتو دوسری جانب درختوں،پرندوں اور جانوروں کے ساتھ راز ونیاز کرنا بجائے خود ایک پرلطف تماشہ ہے۔زینو کا باپ علمیت اور عالمانہ استعداد کے باوجود زینو کے فکر وفلسفے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتا رہا ہے۔علمی مباحث کے دوران سونے کے حصول کا لالچ،فلسفیانہ گفتگو کے دوران اقتدار کی ہوس،مدلل مذاکروں سے تاج وتخت کی طرف توجہ کرنا یا کروانا ایک ایسی مشق ہے جسے وحید احمد نے کئی بار سر کیا ہے۔سادگی سے تحریر کیے ہوئے زینو کے اپنے باپ کے ساتھ فلسفیانہ مکالمے ناول کے مرکزی خیال کی بھی وضاحت کررہے ہیں۔ ''بابا!! اب تو ہمارے برتن بھی سونے کے ہیں۔تم سونے کے جام میں شراب پیتے ہو۔چالیس صندوق سونے سے بھرے ہوئے ہیں۔ کمرے میں جگہ نہیں رہی۔اب تم زمین کھود کھود کر سونا دباتے ہو اور کھدائی بنیادوں تک پہنچ گئی ہے۔۔۔۔۔ تمھارے جوتے کے چرم اور فرغل کے سوت پر سونے کے پترے ہیں۔جب تم دھوپ میں چلتے ہو تو دمکتے ہو۔چاندنی میں گھومتے ہو تو جھلملاتے ہو، اب بس کرو ماں کا خیال کرو،میرا خیال کرو۔''۔۔۔ وحید احمد نے ناول کے آخری حصے میں کارل مارکس،ملوکیت، شہنشاہیت،سامراجیت،عمرانیات،استعماریت،نوآبادیاتی نظام،علوم کا اختلاف، سیاسیا ت ، معاشیات،اخلاقیات،ٹروئسکی کے نظریات، لینن کے افکار،سٹالن کے تصورات،کمیونزم کا فلسفہ اور تمام علوم کا نچوڑ ایک فلسفے پر مرکوز قرار دیا ہے اور وہ ہے فیوچرازم۔''
ناول کے اسلوب کو ایک سپاٹ اور سیدھا سادا اسلوب قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی یہ اس قدر پرپیچ کہ ذہن و دل کے دھاروں کی حدود سے تجاوز کرجائے۔وحید احمد نے ناول کی تحریر سے زیادہ ناول کے اسلوب پر محنت کی ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وحید احمد کے دلکش اسلوب نے ہی '' زینو''کو شاہکاربنا دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔