میرے افسانوں پر کامران کاظمی نے اپنے ایم فل کورس ورک کا مختصر مقالہ ڈاکٹر رشید امجد کی نگرانی میں ۲۰۰۶ء میں لکھا تھا۔یہ مقالہ کتاب کے طور پر چھپنے والا تھا لیکن پھر یہ سارے متعلقین کی اپنی اپنی مصروفیات یا ترجیحات میں گم ہو گیا۔اب کلثوم رقیّہ نے اس گم شدہ مقالے کو نہ صرف از سرِ نو دریافت کیا ہے بلکہ اس کی ترتیب و تدوین کرکے اسے شائع کرنے لگی ہیں۔ میرے لئے یہ بڑی خوشی کی خبر ہے ۔ میں کلثوم رقیّہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں مبارکبادپیش کرتا ہوں۔ کلثوم رقیّہ نے میرے بعض ا فسانوں کے بارے میں چند سوال کئے تھے اور خاص طور پر میرے اب تک کے آخری افسانوں کو سمجھنے میں اپنی مشکل کا ذکر کیا تو مجھے مناسب لگا کہ اپنی افسانہ نگاری کے بارے میں کی گئی اپنی کچھ پرانی باتوں کو بھی دوبارہ بیان کر دوں اور کچھ نئی باتیں بھی اسی تناظر میں کر دوں۔۔۔۔۔۔
محترمہ کلثوم رقیّہ صاحبہ نے میرے افسانوں کے دو مجموعوں کے افسانوں کے بعد کے پانچ افسانوں کے بارے میں چند سوالات پوچھے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان میں سے ’’کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار‘‘پر تو ڈاکٹر کامران کاظمی کے مختصر مقالہ میں مناسب بات ہو چکی ہے اور ’’نیک بندوں کی بستی‘‘ تو ویسے ہی سادہ سی کہانی ہے۔باقی تین کہانیوں کے حوالے سے چند باتیں عرض کر دیتا ہوں۔
’’اپنے وقت سے تھوڑا پہلے‘‘زندگی کے پر اسرار تجربوں اور قریبی رشتوں سے بندھی ہوئی کہانی ہے۔صوفیانہ لہریں اور وجدانی کیفیات میرے افسانوں میں پہلے سے موجود ہیں۔اسی طر ح قریبی رشتوں سے بھی میں ہمیشہ سے جڑا ہوا ہوں۔اب اس میں تجربے کی نوعیت پہلے تجربوں سے زیادہ گھنی ہو گئی ہے اور رشتوں سے وابستگی بھی اپنی جڑیں مزید مضبوط کر چکی ہے۔اس لحاظ سے یہ پہلی کہانیوں کے تسلسل میں آگے کا سفر ہے۔
جنسی نفسیات کے حوالے سے میں پہلے بھی چند افسانے لکھ چکا ہوں۔’’کار اور شیرنی‘‘ بھی اسی کا تسلسل ہے لیکن پہلے والے افسانوں میں اور’’کار اور شیرنی‘‘ میں بھی آپ کونمایاں فرق دکھائی دے گا۔اس موضوع پر مزید غور کرتے ہوئے اورانسانی زندگی کی اس اہم سرگرمی سے گزرتے ہوئے بڑھتی عمر کے ساتھ نیا کچھ بھی منکشف ہوا ہے جو آپ کو ’’کار اور شیرنی‘‘میں دکھائی دے گا۔
’’کہانی کی کہانی‘‘کو قدرے پیچیدہ سمجھا گیا ہے پھر اس میں دو تین ضمنی سوال بھی اٹھائے گئے ہیں۔کسی فلم ایکٹریس کو اتنی زیادہ اہمیت کیوں؟۔۔پھر اس کا نام اتنا واضح کیوں بیان کیا گیا؟مجھے دوسری خوبصورت ایکٹریسوں کے نام بھی بتائے گئے کہ یہ بہت زیادہ خوبصورت ہیں۔ ۔۔۔یہ سوال بھی ہوا کہ افسانہ،کہیں خاکہ نما،کہیں مضمون اور کہیں کچھ اور لگنے لگتا ہے۔ یہ سارے سوال درست ہیں۔
’’کہانی کی کہانی‘‘اس پیچیدہ کائنات کی کہانی کی ہلکی سی جھلک ہے۔اتنی پیچیدہ کائنات ہے تو کچھ نہ کچھ پیچیدگی تو محسوس ہونا ہی تھی۔تاہم یہ ایسی پیچیدہ بھی نہیں کہ بالکل سمجھ سے باہر ہو جائے۔مثلاََ اس میں دائرے کو اہمیت اور فضیلت دی گئی ہے۔اسے توحید کی علامت سمجھ لیں۔اس سے کسی دوسرے عقیدے کی تکذیب بھی نہیں کی گئی بلکہ جتنے بھی تصورات ہیں انہیں کسی جیومیٹری یا اور حساب سے کوئی صورت دے دیں تو وہ ساری مثلث،مربع،مستطیل شکلیں اپنی جگہ موجود ہیں لیکن دائرے نے ان سب کا احاطہ کیا ہوا ہے۔پھردوسری ہر صورت کا آغاز بھی ہے اور اختتام بھی لیکن دائرے کے کسی آغازیا اختتام کا تعین کرنا ہی ممکن نہیں۔مفروضے کے طور پر جس جگہ کو آپ دائرے کا اختتام قرار دیں ، وہیں سے اس کا آغاز ہورہا ہے اور یہی میری کہانی کا اختتام اور آغاز ہے۔
فلم ایکٹریس کا نام دینے میں کوئی حرج نہیںہے۔ہمارے عقائد کی دنیا میں پیاسے کتے کو پانی پلانے والی طوائف کی بھی بخشش ہو جاتی ہے اور طوائف کو بھی سچے خواب آ سکتے ہیں۔یہ کہانی نیکی اور ثواب کے روایتی تصور سے ہٹ کر انسانیت کی کسی ارفع سطح سے متعلق ہے۔فلمی دنیا بھلے گلیمر کی دنیا ہے لیکن اب تو ایک دنیا اس کی اسیر ہے۔بے شک بے شمار دوسری خوبصورت ہیروئنیں ہیں ۔ جہاں تک خوبصورتی کا تعلق ہے،شوبز سے وابستہ ساری خواتین ہی خوبصورت ہوتی ہیں۔میں ماہی گل کی جگہ کسی اور کا نام لکھتا تو تب بھی یہی سوال ہو سکتا تھا کہ یہی کیوں؟
باقی ماہی گل اب کوئی سپر سٹار نہیں ہیں،اچھی اداکارہ ہیںلیکن فلمی دنیاسے تقریباََ کنارا ہی کر چکی ہیں لیکن ان کا مجموعی تاثر ایسا ہے کہ میری کہانی میں وہی آ سکتی تھیں۔میں ایک زمانے میں سادھنا کی فلمیں وضو کرکے دیکھا کرتا تھالیکن وہ بھی ’’کہانی کی کہانی‘‘ میں نہیں آ سکیں۔پاکستان میں نیر سلطانہ اور زیباسے لے کر رانی تک جادوئی حسن والی متعدد ہیروئنیں تھیں۔انڈوپاک کے مزید نام لینے لگوں تو ایک لمبی فہرست بن جائے گی۔ہاں ایک نام ہے فردوس کا۔۔۔اگر ماہی گل کی جگہ کوئی اور نام دیتا تو وہ فردوس کا ہو سکتا تھالیکن یہ سب کچھ میں نے غوروخوض کرکے طے نہیں کیا تھا۔بات ہی کچھ ایسی تھی کہ ماہی گل خود کہانی میں آ گئیں۔ اور آ گئیں تو بس آ گئیں۔
’’کہانی کی کہانی‘‘ میں بعض دوسری اصناف جیسے تاثر کی بات ایک حد تک درست ہے۔سہ ماہی ’’شعروسخن‘‘ کے مدیر جان عالم کو جب میں نے یہ افسانہ بھیجا تو انہوں نے بھی بعض دوسری اصناف کے مدغم ہونے کی طرف توجہ دلائی۔تب میں نے انہیں بتایاکہ ایسا بیس سال پہلے سے ہو رہا ہے اور میں نے خود اس صورت حال کا ذکر کر رکھا ہے تو وہ مطمئن بلکہ خوش ہو گئے کہ آپ کو اس کا ادراک ہے اور آپ شعوری طور پر ایسا کر رہے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔بہت پہلے سے اس کا ادراک ہونے کا ایک ثبوت تو اسی مضمون میں ڈاکٹر نذر خلیق کے انٹرویو میں موجود ہے جس میں، میں نے کہا ہے کہ:
’’خاکہ نگاری اور افسانے کی اپنی اپنی حدود ہیں۔لیکن’’ مسکراہٹ کا عکس ‘‘میں تو جیسے یہ حدود ایک دوسرے سے مل گئی ہیں۔‘‘
یہ ۲۰۰۳ء یا ۲۰۰۴ء کا انٹرویوہے۔’’مسکراہٹ کا عکس‘‘میرے ابا جی کے حوالے سے اہمیت کا حامل افسانہ تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ ’’اپنے وقت سے تھوڑا پہلے ‘‘ میں بھی اباجی کا مرکزی کردار موجود ہے۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ کا باب ’’روح اور جسم‘‘پہلی بار ’’جدید ادب‘‘جرمنی کے شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا تھا۔اس میں میرے یہ الفاظ دیکھ لیں۔
’’ان دنوں میں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میری مختلف اصنافِ ادب میں تخلیق کاری کا عمل دوسری اصناف میں کچھ کچھ مدغم ہونے لگا ہے۔مثلاَ یادوں کی گزشتہ اور موجودہ قسط میں یادوں کے ساتھ افکار و خیالا ت کی زیادہ یلغار ہو رہی ہے،یوں یادیں مضمون جیسی صورت اختیار کر رہی ہیں۔اسی طرح میرے آخری تین افسانوں(’’مسکراہٹ کا عکس‘‘،’’ کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار‘‘ اور’’ اپنے وقت سے تھوڑا پہلے ‘‘) میں یادوں کے گہرے اثرات کہانی کا رُوپ اختیار کر گئے ہیں۔اگرچہ ایسے اثرات میری دوسری کہانیوں اوردیگر تخلیقات میں بھی ہیں لیکن اتنے گہرے نہیں جتنے مذکورہ تین افسانوں میں در آئے ہیں۔‘‘
میرا خیال ہے ابھی اتنا لکھا ہوا کافی ہے۔گفتگو کی گنجائش ہوئی تو اس کے بعد بھی حاضر ہوں۔
(کلثوم رقیہ کی مرتب کردہ کتاب’’حیدرقریشی کے افسانوں کا مطالعہ‘‘میں شامل میرے تازہ مضمون ’’پرانی تحریریں،نئے حالات اور مزید باتیں‘‘کاپہلاپیراگراف اور آخری حصہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔