ادب، سائنس اور الہٰیات تین الگ الگ جہان ہیں۔ادب اور الہٰیات کے موضوعات میں ہم آہنگی ڈھونڈنے کا شوق مجھے شروع سے رہا ہے لیکن سائنس کے وسیع تر مفہوم میں میری دلچسپی ڈاکٹر وزیر آغا کے مطالعہ اور ان سے میل ملاقاتوں کے بعد شروع ہوئی۔یوں ایک عرصہ سے جہاں مجھے ادب کے تخلیقی دیارسے گزرنے کا تجربہ ہوا ہے وہیں مجھے جدیدتر سائنسی انکشافات، اورحیرت انگیز ایجادات کا بھی سامنا ہے۔بچپن سے والدین نے مذہب کی حقیقتِ عظمیٰ کی سچائی کا جو بیج میرے اندر بویا تھا،وہ اسی کے وسیع تر مفہوم میں الہٰیات سے میری وابستگی کا موجب بن گیا ہے۔سو یوں مجھے ادب،سائنس اور الہٰیات کو اپنی بساط اور اپنی سوچ کے دائرہ کارکے اندر رہتے ہوئے ،سمجھنے کا موقعہ ملتا رہتا ہے اور اس پر غور وفکر کی جتنی بھی توفیق مل جائے اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ میری مختلف تحریروں میں بالعموم اور میری یادوں کے دو ابواب’’رہے نام اللہ کا‘‘اور’’روح اور جسم‘‘میں بالخصوص کسی حد تک تفصیل کے ساتھ اظہارِ خیال موجود ہے۔ان کا حوالہ اس لیے دے رہا ہوں کہ کسی دوست کو زیادہ دلچسپی محسوس ہو تو وہ اس مضمون کے پس منظر کے طور پر ان ابواب کو پڑھ سکے۔
یہاں اختصار کے ساتھ تمہید کے طور پرادب،سائنس اور مذہب کے دائرۂ کار کی بابت عرض کردوں کہ تینوں اپنے اپنے دائرۂ کار میں آزاد و خود مختار ہیں۔لیکن اپنے اپنے وسیع مفہوم میں تینوں کے سفر کا رُخ کائنات کی حقیقتِ عظمیٰ( خالقِ کائنات) کی جانب ہے۔اللہ جمیل و یحب الجمال کی حقیقت ذہن میں رکھی جائے تو ادب کا جمالیاتی سفر از خود واضح ہوجاتا ہے۔ صوفیا کی زبان میں اسے مجاز سے حقیقت کی طرف کا سفر قرار دیا جاتا ہے۔ سائنس کے جدید تر انکشافات کو دیکھا جائے تو کئی بار ایسے لگتا ہے جیسے مذہبی عقائد اور تصورات کی شکست و ریخت ہو رہی ہے۔لیکن بعض مذاہب اور مسالک کی مقامی نوعیت پر کہیں ضرب اور کہیں چپت لگانے کے باوجودسائنس کا سفر بھی کائنات کی اس حقیقتِ عظمیٰ کی جانب ہے ،جو خالقِ کائنات ہے ۔گویا بظاہر سائنس خدا کی نفی کررہی ہے،لیکن یہ نفی کرتے ہوئے ،پیچھے ہٹتے ہوئے ،دور ہونے کی بجائے حقیقتاََ خدا کے زیادہ قریب ہوتی جا رہی ہے۔ مذہب ویسے ہی براہِ راست خدا تک پہنچنے کا،پہنچانے کا دعویٰ کرتا ہے۔گویا ادب،سائنس اور مذہب تینوں کے سفر کا رُخ ایک ہی جانب ہے،بس تینوںکے اسفار کی نوعیت الگ الگ ہے۔تینوں اسی کی طرف جا رہے ہیں لیکن الگ الگ اطراف سے جا رہے ہیں اور اُس کے لیے تو ساری طرفیں ہی بے معنی ہیں۔
ادب معلوم کی دنیا سے اپنا سفر شروع کرنے کے ساتھ ہی نامعلوم کی دریافت کا سفر شروع کردیتا ہے۔جو ادیب عصری ترجمانی پر مصر رہتے ہیں،وہ معلوم جہان کو ہی دریافت کرتے رہتے ہیں۔اگر ہم گزشتہ زمانوں کی پرانی کہانیوں کی طرف جائیں تو پرانا داستان گو اپنے دیہاتوں اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں کہیں اڑن طشتریوں،اڑن قالینوں، کا ذکرکررہا تھا تو کہیں جنوں،دیووں،پریوں اور پریزادوں کو پرواز کرتے ہوئے دکھا رہا تھا ۔کہیں کوئی جادو گر اور کہیں کوئی نیک دل بزرگ کسی مسافر کو آنکھیں بند کرنے کا کہہ رہا ہے،اور جب مسافر کو آنکھیں کھولنے کی صدا آتی ہے تو جادوگراور نیک دل بزرگ دونوں غائب ہوتے ہیں لیکن مسافر ہزاروں میل کی مسافت پلک جھپکنے میں طے کرچکا ہوتا ہے۔
اگر عصری ادب کی ترجمانی کو تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف کر دیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہزاروں برسوں سے ہمارے داستان گو،ہمارے تخلیق کار ایک اجتماعی کشف دیکھتے آرہے تھے۔اس کے اظہار کے لیے ان کے پاس آج کی تیز رفتارہوائی،بحری اور بری سواریوں کے لیے معین الفاظ نہیں تھے،لیکن وہ علامتی پیرائے میں ان سب کو بیان کرتے رہے۔اگر وہ داستان گو اپنے تخلیقی کشف کا انداز بدل بدل کر اظہار کرنے کی بجائے صرف عصر کی ترجمانی کرتے رہتے تو اپنے اپنے قصبوں اور شہروں کے قہوہ خانوں میں بیٹھے وہاں کی نقشہ کشی کرتے رہتے۔
اپنے بچپن میں نصابی مطالعہ کے دوران جامِ جمشید کا ذکر سنا تھا۔ایران کا بادشاہ جس کے پاس ایسا جام تھا جس میں وہ دنیا جہان کے جس حصے کے بارے میں جاننا چاہتا،وہاں دیکھ لیا کرتا تھا۔اسی جام جمشید کے حوالے سے ہمارے غالب ؔ صاحب نے یہ کہہ کر اپنے دل کوبہلا لیا ۔
اور بازار سے لے آئے،اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مِرا جامِ ِ سِفال اچھا ہے
لیکن آج ہم اپنی آنکھوں سے جامِ جمشید سے زیادہ اعلیٰ جام، موبائل فون کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔موبائل فون جس کے اندر انٹرنیٹ سمیت ایک پوری دنیا سمائی ہوئی ہے ۔آج قدیم ایران کے شاہ جمشید کو یہ موبائل سروس دیکھنے کا موقعہ ملے تو نہ صرف اپنے داستانوی جام کو بھول جائے بلکہ اس نئے جام کو دیکھتا ہی رہ جائے۔غالبؔ زندہ ہوتے تو میرے گھر میں آج کے زمانے کے کتنے ہی ساغرِ جم ،اپنے جامِ سفال سے زیادہ بری حالت میں ٹوٹے ہوئے پڑے دیکھتے،بلکہ جدید جام جم کے معاملہ میں’’ سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا‘‘ ۔۔جیسا منظر دیکھ لیتے۔ جدید جامِ جم جتنے مرضی ٹوٹ جائیں، خراب ہو جائیں،بازار سے جا کر اور لائے جا سکتے ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک تو عصری ادب ہی سب کچھ نہیں ہوتا،دوسرا یہ کہ نا معلوم کی دریافت ادب کے ذریعے ہو یا سائنس کے ذریعے،ایک انوکھی مسرت کا باعث بنتی ہے۔جو مذہبی زبان میں اپنا اجر آپ ہوتی ہے،اجرِ عظیم ہوتی ہے۔
بچپن کی سنی ہوئی کہانیوں میں سے بعض میں ایسے کردار ملے تھے جو جب چاہتے دیکھنے والوں کی نظروں سے غائب ہو جاتے۔یہ کردار سلیمانی ٹوپی والے کردار سے الگ اور مختلف تھے۔بلکہ مجھے یاد ہے ایسی ہی ایک کہانی میں غائب فرد کبھی خود تو غائب ہوتا لیکن اس کا اوور کوٹ دکھائی دے رہا ہوتا۔کبھی وہ پورا غائب ہوتا لیکن اس کے ہاتھ کی چائے دانی سب کو دکھائی دیتی،کہ وہ چائے دانی سے سب کے پیالوں میں چائے بھر رہا ہوتا تھا۔بچپن کی ایسی کہانیوں کی ایک جھلک اپنے بچوں کے بچپن کی ایک فلم’’مسٹر انڈیا‘‘میں دیکھنے کو ملی۔لیکن اب جیسے میرے بچپن کے ساتھ میرے بچوں کا بچپن ہی نہیں میری اگلی نسل کا بچپن بھی شامل ہو گیا ہے۔تین نسلوں کا بچپن حیرت سے جدید تر سائنسی انکشاف سے آگاہ ہو رہا ہے۔اس نئے انکشاف کو پاکستان کے ایک اہم اور جینوئن سائنس دان ڈاکٹر عطاالرحمن کے الفاظ میں یہاں درج کر رہا ہوں۔’’ایک نہایت ہی مختلف قسم کا مادہ تیار کر لیا گیا ہے،جسے Metamaterials کا نام دیا گیا ہے۔اس مادے کی خوبی یہ ہے کہ روشنی کی شعاعوں کو اپنے سے دور جھکا دیتا ہے،روشنی کو جذب کئے یا عکس بنائے بغیر۔لہٰذا وہ تمام چیزیں جو اس مادے کی لپیٹ میں ہوتی ہیں نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔یہ عجیب و حیرت انگیز مواد روشنی کی شعاعوں کو اپنے گرد اس طرح گھومنے دیتا ہے جیسے پانی چٹان کے گرد گھومتا ہے۔اس طرح وہ چیزیں جو اس کے پیچھے ہیں،وہ تو نظر آتی ہیں لیکن جن چیزوں پر یہ لپٹا ہوا ہے وہ اوجھل رہتی ہیں۔‘‘
اس ایک تجربے کی کامیابی کو صرف ایک زاویے سے دیکھنا مناسب نہیں ہوگا۔جس طرح موبائل فون میں کتنی ہی سائنسی برکات کے سلسلے سمٹ کر یک جا ہو گئے ہیں،مجھے اسی طرح اس جدیدتر سائنسی پیش رفت میں کئی دوسری سائنسی ترقیات یک جا ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ خصوصاََکلوننگ کا تجربہ جسے بظاہر نظر انداز کر دیا گیا ہے لیکن جو اس عہد کی سائنسی ترقی کا حیران کن اور اہم ترین تجربہ ہے۔مجھے یقین ہے کہ بڑے سائنسی ممالک درپردہ اس سائنسی پیش رفت کے فوائد کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان کی گنجائش نکالنے کے تجربے بھی کر رہے ہیں۔
مذہبی زبان میں حضرت محمد مصطفی ﷺکا معراج کا واقعہ بظاہر ناقابلِ یقین لگتا ہے،زیادہ تر لوگ اسے عقیدہ کا جزو سمجھ کر مان لیتے ہیں اور مزید بات نہیں کرتے۔بعض مسالک نے اپنی توجیہات سے اسے نورانی اور روحانی سفر بنا لیا ہے۔لیکن اس سفر کی جدید تر سائنسی توجیہہ بعد میں ۔۔یہاں مجھے ایک دو کہانیوں کا ذکر کر لینے دیں۔
اصحابِ کہف کا واقعہ تو مذہبی کتب میں بھی مرقوم ہے لیکن اس سے ملتے جلتے قصے ہماری داستانوی ادبیات میں بھی شامل ہیں۔بیوی کو کھانا تیار کرنے کا کہہ کرکوئی دریا کے کنارے تک کسی کام سے جا تا ہے،وہاںپھسلتا ہے اور ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔وہاں شادی کرتا ہے،بچے پیدا کرتا ہے،ایک عمر گزارتا ہے اور پھر ایک دم کسی جھٹکے سے گزرتا ہوااپنی پہلی دنیا میں لوٹ آتا ہے۔ گھر پہنچتا ہے تو بیوی ابھی کھانا تیار کر رہی ہوتی ہے۔وہ جو نئی زندگی کے کتنے ہی زمانے گزار کر گھر واپس آتا ہے ،واپس آکر دیکھتا ہے کہ یہاں تو زمانہ ابھی وہیں کا وہیں ہے۔تو جناب وقت کی یہ چال۔۔زمانے کا یہ رنگ، کیا بھید ہے؟ ’’زمانے کو برا مت کہو ،ہم خود زمانہ ہیں‘‘(حدیث قدسی)
حالیہ دنوں کی سائنسی کہانیوں میں روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کی چند مغربی کہانیاں سامنے آئی تھیں۔جن کے مطابق زمینی،بحری اور ہوائی سفر کے سارے ذرائع بے کار ہو جائیں گے اور انسان پلک جھپکتے میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جائے گا۔
ایسی ساری نئی پرانی کہانیوں اور مذہبی معتقدات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ مذہب اور ادب ایک دوسرے سے استفادہ کر رہے ہیں لیکن میرے نزدیک مذہب اور ادب درحقیقت ایک دوسرے کی ایسی سچائی کی توثیق کر رہے ہیں،جو ہمارے لیے کچھ کچھ معلوم سی ہوتے ہوئے بھی نامعلوم کا دیار ہے۔اب سائنس نے بھی اس دیار میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا ہے۔اس سلسلے میں جتنی پیش رفت ہو چکی ہے،وہ بھی حیران کر دینے کے لیے بہت زیادہ ہے،جبکہ اس کے امکانات اتنے زیادہ ناقابلِ یقین حد تک حیران کن ہیں کہ بندہ سوچتا جائے اور حیرت آمیز مسرت سے لبالب بھرتا چلا جائے۔
گزشتہ دس برسوں سے ایک سائنسی تحقیق ہو رہی تھی۔اس سلسلہ میں ۲۰۰۳ء سے ایک سُرنگ کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا۔سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر واقعCERN کے مقام پر ’’یورپی لیبارٹری برائے ذراتی فزکس‘‘میں کائنات کی ابتدا کے بارے میں معروف سائنسی نظریہ ’’بڑے دھماکے‘‘(Big Bang )کو دہرانے کا پروگرام بنایا گیا۔اس تجربہ کو مختلف ممالک کے قابلِ ذکر سائنس دانوں کی ایک محدود تعداد نے’’یورپی لیبارٹری برائے ذراتی فزکس‘‘ میں براہ راست دیکھا جبکہ کمپیوٹر کے ذریعے مجموعی طور دنیا بھر کے دس ہزار سائنس دانوں نے اس تجربہ کا مشاہدہ کیا۔سوئٹزر لینڈ اور فرانس کی سرحد پر دائرے کی شکل میں بنائی گئی سترہ میل لمبی سُرنگ میں چند ذرات پر ’’بڑے دھماکے‘‘کا تجربہ آزمایا گیا۔اس سے نہ صرف اس سائنسی تصور کی توثیق ہوئی کہ 13.7 بلین سال پہلے کائنات ایک بڑے دھماکے کے نتیجہ میں معرضِ وجود میں آئی،بلکہ بعض نئے انکشاف بھی سامنے آئے۔۱۹۶۴ء میں ایک برطانوی سائنس دان پیٹر ہگز نے پہلی بار ایسے کسی ذرّے کا ذکر کیا تھاجو مادے اور توانائی کے بارے میں ایک عظیم تر نظریے کی گم شدہ کڑی ہے۔ اردودنیا کے لیے اتنا لکھ رہا ہوں کہ ڈاکٹر عبدالسلام کا بھی پیٹر ہگزکے اس سائنسی نظریے کے ساتھ تعلق تھا۔
اب ہوا کیا کہ بڑے دھماکے کے تجربہ کے دوران ایک انوکھا’’پارٹیکل‘‘دیکھنے میں آیا۔ بڑے دھماکے کا عمل شروع ہونے سے پہلے وہ انوکھاسب پارٹیکل سامنے آیا اور اس نے جیسے اس سارے عمل کا فرمان جاری کیااور پھر غائب ہو گیا۔اس کے ساتھ ہی بڑے دھماکے کا عمل شروع ہو گیا۔وہ انوکھاسب پارٹیکل جس نے بڑے دھماکے کے عمل میں کلیدی کردار ادا کیا،اسے مذکورہ سائنس دان کے نام کی نسبت سے ’’ہگز بوسون‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس کی کار کردگی کی نوعیت کے باعث ’’گاڈ پارٹیکل‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔اب یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ کائنات کا وجود اسی لیے ممکن ہو سکا کہ مادے کو حجم اور توانائی ’’گاڈ پارٹیکل‘‘کی بدولت ملے تھے۔ مذکورہ سب پارٹیکل کو’’گاڈ پارٹیکل ‘‘نام دے کر سائنس دانوں نے مجھ جیسے ’’نان سائنس‘‘ بندے کے لیے سہولت فراہم کر دی۔مجھے ایسے لگتا ہے کہ یہ سب پارٹیکل مذہبی زبان میں حکمِ خداوندی تھا،وہ آیااور اس کا آنا’’کُن‘‘ کا اعلان تھا۔چنانچہ اس کے ساتھ ہی سترہ میل لمبی دائرے کی شکل میںبے حد محدود سطح کا سہی لیکن تخلیقِ کائنات کا منظر ایک بار پھر دہرادیا گیا۔
کُن کا اک لفظ اسیروں پہ کہیں سے اترا
آسماں ہو گئے تخلیق قفس کے اندر
عجیب اتفاق ہے کہ ۲۰۰۳ء میں سوئٹزرلینڈ میںوہ سرنگ بننا شروع ہوئی ،جس میں یہ تجربہ کیا گیا ۔ تب میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا کوئی تجربہ ہونے جا رہا ہے،لیکن اُسی برس ایک غزل ہوئی جس میں میرا یہ شعر بھی شامل تھا۔یہ حسنِ اتفاق میرے لیے ذاتی مسرت کا باعث ہے۔
ایک بھارتی خاتون سائنس دان نے جو اس سارے منظر کو دیکھنے والوں میں شامل تھیں، بعد میں کہا کہ ’’گاڈ پارٹیکل‘‘ہمیں دوبارہ دکھائی نہیں دیالیکن ہم اسے ڈھونڈ رہے ہیں۔اس کی مثال ایسے ہے جیسے ہم کسی کھیت میں کوئی سوئی تلاش کر رہے ہوں۔لیکن چونکہ اس کی ہستی ہے، اس لیے ہم اسے ڈھونڈ رہے ہیں،چاہے اس میں کتنا وقت ہی کیوں نہ لگ جائے۔
’’گاڈ پارٹیکل‘‘ کی صورت میں ایک ہلکی سی جھلک دکھائی دی ہے تو ہمارے عظیم سائنس دان بھی ،اپنی اصطلاحات کے دائرے میں رہتے ہوئے سہی خدا کی تلاش میں نکل کھڑے ہیں۔ مجھے تو یہ سارے سائنس دان اس وقت کے صوفی لگنے لگے ہیں۔ نام اور نوعیت کے فرق کے باوجود جستجوئے الہٰی کا یہ جذبہ اپنی جگہ دلچسپ بھی ہے اور حیران کن بھی۔سائنس دانوںکی پہلی کوشش یہ ہے کہ گاڈ پارٹیکل کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکے کہ مادے کو حجم کیسے ملا؟پھر مادے کو توانائی اور توانائی کو مادے میں تبدیل کرلینے کا کوئی آسان رستہ تلاش کرنا مشکل نہ رہے گا۔
یہاں تک لکھتے ہوئے میں سچ مچ حیرت اور خوشی سے بھر گیا ہوں۔اگر مذکورہ کامیابیاں حاصل ہو گئیں تو سامنے کی بات یہ ہے کہ سچ مچ میں روشنی کی رفتار سے سفر کرنا ممکن ہو جائے گا۔یہ روشنی کی رفتار سے سفر کر سکنے کی بات مذہبی عقائد اور قصے کہانیوں سے ہوتی ہوئی عملی صورت اختیار کرنے کے قریب آگئی ہے۔لا تنفزون الا بسُلطٰن تم’’ سلطان‘‘کے بغیر زمین و آسمان کے کناروں سے نہیں نکل سکتے۔
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
کل تک جن باتوں کو محض قصے کہانیاں اور خوش اعتقادی کہا جا رہا تھا،آج سائنس ان باتوں کی توثیق کرنے لگی ہے۔کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ان گنت رموز،کلوننگ کا اسرار،اور اب گاڈ پارٹیکل تک رسائی کی کاوش،یہ سب کچھ یک جا ہو گیا تو بات صرف روشنی کی رفتار سے سفر کرنے تک نہیں رہے گی۔مزید پتہ نہیں کیا سے کیا ہوجائے گا۔
اللہ نورالسموات والارض اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔اس نور کا منبع تو پتہ نہیں کہاں ملے لیکن ایک سرا گاڈ پارٹیکل کی صورت میں ملنے والا ہے۔یہ موضوع مجھے مزید غوروفکر کی طرف مائل کر رہا ہے، مجھے اندازہ ہے اس راہ میں دو چار نہیں بہت سارے سخت مقام آئیں گے،لیکن جستجو سچی ہو تو پھر سختیاں بھی آسان ہو جاتی ہیں۔زمان کاخود خدا ہونااور خلا کی چوتھی ڈائمنشن کے طور پر وقت کی دریافت ،ادب، سائنس،اور الہٰیات کے وسیع ترموضوع کو مزید ہم آہنگ کر رہے ہیں۔
ادب،سائنس اور الہٰیات کے الگ الگ جہانوں میں سے گزرتے ہوئے اَن دیکھے جہانوں کی سیر کرنااورپھر ان سب میں کسی نہ کسی نوعیت کی ہم آہنگی تلاش کرنا اور اس پر مزید غور و فکر کرنامیرے لیے ہمیشہ مسرت آمیز حیرت کا باعث رہا ہے۔بچوں جیسی یہ مسرت آمیز معصوم حیرت میرے لیے عمر کے اس حصے میں بھی بہت بڑی نعمت ہے۔میرے محدود سے پڑھنے ،لکھنے کا بہت بڑا انعام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔