ملاقات تو یاد نہیں کتنے برس پہلے ہوئی لیکن ہمدمی صدیوں کی محسوس ہوتی ہے۔ جب بھی گفتگو ہو، فون پر یا بالمشافہ، بہت ہی خوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔ پیشہ تو ہے دکھی انسانیت کی باقاعدہ خدمت کرنا، اپنی مسیحائی کے ذریعے۔ یہ مسیحائی صرف جسمانی عوارض تک محدود نہیں ہے۔ نظریاتی مسیحائی بھی کرتے ہیں۔ روح کی تیمارداری بھی۔ آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اپنے ہمراہیوں کو بھی آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ خود تو آگے چلتے رہیں۔ دوسرے ہم قدم پیچھے رہ جائیں۔ یہ ضرور ہے کہ پیچھے مڑ کر دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی زخمی تو نہیں ہوگیا۔ کوئی تھک کر رک تو نہیں گیا۔
ادب و شعر کے دلدادہ ہیں۔ کھل کر بات کرتے ہیں۔ اْردو انگریزی سندھی ادبیات سے تعلق خاص۔ مطالعہ ہر موسم میں جاری رکھتے ہیں۔ ان کی دلی خواہش ہے کہ نوجوان نسل بھی اپنی مادری زبان، اپنے علاقائی ادب، ثقافت، تمدّن سے آشنا رہے۔ سندھ کی صدیوں قدیم تہذیب کے آثار، مناظر، دنیا بھرتک پہنچانا چاہتے ہیں۔ سندھی شاعری کی تاریخ اتنی تحقیق اور تدقیق سے مرتب کی کہ وہ انتخاب ایک مثال بن کر رہ گیا۔ ہماری زیادہ قربت اس دستاویز کے حوالے سے رہی۔ قدیم شعرا، پھر صوفی شعرا، پھر بیسویں صدی کے شعرا و شاعرات۔ قیام پاکستان کے بعد کی شاعری، تقسیم ہند کے سندھی شاعری پر اثرات، سندھ کی جمہوری جدو جہد کے دوران ہونے والے المیے، سندھی بولی کے تحفظ اور سر بلندی کی خاطر قربانیاں، اس انتخاب سے محفوظ ہوگئیں۔ جدید دَور کے شعرا و شاعرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ یقینا یہ ایک انتہائی مخلصانہ اور غیرجانبدارانہ کاوش ہے۔ شعر و ادب کی فہم صرف سندھی زبان تک محدود نہیں ہے۔ اْردو اور انگریزی ادب پر بھی گہری نظر ہے۔ دور دیشوں کے سفر پر نکلتے ہیں تو فیس بک کے صفحات کے ذریعے ہم وطنوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ان دلچسپ اور حسین مناظر میں ہمیں بھی ساتھ رکھتے ہیں۔
دْعا یہی ہے کہ اسی طرح ان کی آنکھوں میں مسکراہٹ رقصاں رہے اور پیشانی اسی طرح تمتماتی رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔