زمیں کرے گا کبھی آسمان کر دے گا
کہیں جہاں میں وہ عبرت نشان کر دے گا
کبھی گرائے گا وہ عرش کی بلندی سے
اٹھا کے خاک سے پھر آسمان کر دے گا
وہ میرے اشک سمیٹے گا اپنی پوروں سے
غموں کی دھوپ کو بھی آسمان کر دے گا
کبھی تو آنکھ میں اترے گا نیند کا موسم
خدا کبھی تو اسے مہربان کر دے گا
وہ جس کے جسم سے خوشبو لپٹ کے رہتی ہے
مِرے وجود کو صندل نشان کر دے گا
میں جان اس پہ نچھاور کروں گا اب طاہرؔ
سو سرخرو مجھے یہ امتحان کر دے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔