اگرچہ گرم بازاری بہت ہے
محبت میں مگر خواری بہت ہے
دلوں کی پاسداری چاہتا ہوں
جہاں رسمِ دل آزاری بہت ہے
محبت بھی کسی کو ہو گی لیکن
محبت کی اداکاری بہت ہے
حسیں محبوس ہو کر رہ گئے ہیں
کہ شورِ چار دیواری بہت ہے
کہاں سے نعرۂ مستانہ اٹھے
کہ لوگوں میں سمجھ داری بہت ہے
میں ریزہ ریزہ ہو کر کٹ رہا ہوں
وفا کی دھار تلواری بہت ہے
بڑے منصب پہ جانا چاہتا ہوں
پر اس کا راگ درباری بہت ہے
ابھی اکبر ؔبہت ہمت ہے مجھ میں
اگرچہ زخم بھی کاری بہت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔