اجمل خان جیسے ہی اپنے گاؤں برکلے میں داخل ہوا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ ہر طرف کچے مکانوں کی جگہ پکے مکانات تعمیر ہوگئے تھے۔کچی پگڈنڈیوں کی جگہ ہموار سڑکیں جن کے کنار ے کبھی ہرے بھرے اور سرسبز و شاداب درخت اور لہلہاتے کھیت ہوا کرتے تھے ،وہاں اب دونوں اطراف دکانوں اور مارکیٹوں کا گھیرا تھا۔ یہ نظارے دیکھ کر اجمل کا دل جیسے بجھ سا گیا، کیونکہ وہ امریکہ میں عرصہ دراز گزار کر لوٹا تھا اور اس کی یادیں اپنے پرانے گاؤں میں اٹکی تھیں۔اسے یوں محسوس ہوا کہ یہ وہ گاؤں نہیں ہے جس کے سایہ دار درختوں کے سائے میں اس کا بچپن گزرا تھا، جوانی کی سہانی شاموں میں آنے والے وقتوں کے خواب دیکھے تھے اور لیلیٰ کی پازیب کی جھنکار سننے کے لیے ندی کنارے گھنٹوں انتظار کیا کرتا تھا۔اجمل کے احساسات اور جذبات کی گرمی ٹھنڈی پڑ گئی اور وہ دل برداشتہ گھر کی طرف چلنے لگا۔ اس کا بھائی کریم اسے بار بار کہتا رہا کہ لا لہ مو ٹر میں بیٹھ جاؤ مگر اسے تو جیسے مد ہو شی نے لپیٹ میں لے لیا تھا۔ گھر کے سامنے پہنچ کر اجمل کو سمجھ نہ آیا کہ اس کا گھر کہاں گیا،وہ ابھی کشمکش میں تھا کہ دروازہ
پر ما ں کو دیکھ کر اجمل بے اختیار اس کی طرف بڑھا جس کے بالوں میں سفید بال چاندی بن کر چمک رہے تھے والدہ سے بغلگیر ہو کر بے اختیار پوچھا مور جان یہ کیا ہو گیا یہ سب کچھ کیوں بدل گیا ؟ یہاں گھر کے دروازے کے دونوں اطراف جو بیری کے درخت تھے وہ کہاں گئے اور سا منے جو پیپل کا سایہ دار درخت تھا وہ بھی نہیں ہے۔ والدہ بیٹے کو دیکھ کر خوشی سے جہاں پھولے نہ سمائی وہاں ایک آہ بھر کر بولی کہ میونسپل کار پوریشن والوں نے گلی محلے کو پختہ کرنے کی غرض سے وہ درخت کاٹ دیے ۔اجمل کی نگاہوں میں گرمی کی وہ دوپہریں کسی تصویر کی طرح گھومنے لگیں جب بجلی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پیپل کے درخت کے نیچے چارپائی ڈال کر بیٹھا کرتا تھا اور ٹھنڈی چھاؤں میں گرمی کی شدت کا احساس کم ہو جاتا تھا۔
یا دو ں کی زنجیروں میں جکڑا اجمل جیسے ہی گھر میں داخل ہوتا ہے تو گھر کا نقشہ اسے اور بھی پریشان کر دیتا ہے جہاں گڑونچی پر دو گھڑے رکھے ہوتے تھے وہاں ایک عدد بہت ہی خوبصورت باورچی خانہ بنا تھا جس کے سامنے ایک فل سائز فریج پڑا تھا۔ ماں نے اجمل کو برآمدے میں جدید طرز کے صوفے پر بٹھایا اور بار بار اسے گلے لگاتے ہوئے کہنے لگی میری آنکھوں کا نور میرا بیٹا اجمل پورے 10 سال بعد آیا ہے مجھے تو یقین نہیں آتا کہ تم میرے سامنے بیٹھے ہو چھوٹی بہن اجمل کو دیکھتی رہی اور مسکراتی رہی۔اجمل نے اسے پکاراتم تو مجھ سے لمبی ہو گئی ہو۔ تابان نے کہا لمبا تو ہونا تھا آپ کتنے عرصے بعد آئے ہیں۔اجمل بولا۔تابان یہاں تو سب کچھ بدل گیا ہے تم بھی بدل گئی ہو جب میں جا رہا تھا تو تم تین فٹ کی تھی اور اب پورے چھ فٹ کی ہو گئی ہو۔ تابان نے جواب دیا۔لالہ! آپ کی لیلیٰ بھی تو دلہن بن کر شہر چلی گئی ہے، اب اس کے دو بچے ہیں۔ ماں تابان کو گھورتی ہے اور ڈانٹتی ہے کہ بھائی کے لیے کچھ کھانے پینے کا لا ؤ۔ تابان اٹھ کر باورچی خانے میں جاتی ہے اور کچھ دیر بعد شیشے کے جگ گلاس میں اورنج جوس لاتی ہے۔ اجمل گلاس میں بہن کو شربت ڈالتے ہوئے دیکھتا ہے تو ماں سے مخاطب ہوتا ہے مور جان میں تو لسی کے انتظار میں تھا۔ مور جان اپنے بیٹے کے احساس کو سمجھتے ہوئے خا مو ش رہی ، اجمل نے پھر سوال کیا وہ سامنے برآمدہ جہاں موٹر کار کھڑی ہے اس میں ہماری دو گائے ہوا کرتی تھیں وہ کیا ہوئیں" مور جان "؟۔۔بیٹا! اب وہ زمانہ گیا، گائے سنبھا لنا میرے لیے مشکل ہو گیا تھا، قریب کے سارے کھیت ختم ہو گئے ، اور گاؤں کے ارد گرد جتنی بھی زمینیں تھیں وہاں ہاؤسنگ سکیمیں شروع ہو کر بڑی بڑی عمارتیں تعمیر ہو گئیں، تمام سر سبز و شاداب زمینیں صنعتی اور تہذیبی ترقی کی بدولت پکی اینٹوں سے بنی نگری میں بدل گئی ہیں۔ مور جان بھی جیسے ایک دکھ کی کیفیت میں مبتلا ہو گئی تھیں۔
جب شام کے سائے ڈھلنے لگے تو حبس نے ماحول کو مزید گھٹن زدہ کر دیا۔ ماں نے اجمل سے لاڈ سے کہا بیٹا میں اب تمہاری شادی کروانا چاہتی ہوں ۔اجمل پھر ما ضی کے دھندلکوں میں گم ہو گیا جہاں سے تابان کی آواز نے اسے حال میں واپس آنے پر مجبور کر دیا۔ تابا ن کہہ رہی تھی لالہ جی! آپ کے جانے کے بعد" لیلیٰ "ہر دوپہر کو پیپل کے درخت کے نیچے آکر بیٹھ جاتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی اداسی اور چہرے پر زردی ہوتی تھی۔ کئی سال اس کیفیت میں گزرے اور جب پیپل کا درخت کٹ گیا تو لیلیٰ کی یاد کا حوالہ بھی مٹ گیا اور کچھ عرصے بعد اس کی شہر کے دلاور خان سے منگنی ہو گئی۔
اجمل کے دن رات گاؤں میں بے چینی سے گزرنے لگے وہ گاؤں جس میں فطرت کے حسن کی فرا وانی تھی جس میں تازہ ہوا سانسوں میں توانائی بھر دیتی تھی اب وہاں کی گھٹن زدہ اور ترقی یافتہ فضا میں دم گھٹنے لگا تھا۔گھر کے باہر نکلتا تو پیپل کے درخت کے نیچے لیلیٰ کھڑی نظر آتی اور پھر اس کی آنکھوں سے اس کا غم آنسوؤں کی صورت نکلنے کی کو شش کرتا جس کو وہ اپنی مردانہ آن کی بنا پر چھپا لیتا ۔اجمل کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ و قت گزرنے کے ساتھ وہ گاؤں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف ہو گیا۔ ماں کے مسلسل اصرار پر بھی شادی کے لیے رضامند نہ ہوا۔ اپنے لیے مختلف مصروفیات تلاش کرنے لگا۔ اپنا کاروبار شروع کیا گاؤں کی طرف آتی ہوئی سڑک پر ایک نرسری بنائی اور گاؤں کے ساتھ ساتھ قریب کے علاقوں کو پدے مہیا کرنے لگا اور فطرت کا وہ حسن جو ترقی کی دوڑ میں اس کے گاؤں سے چھین لیا گیا تھا اس کا بدل تلاشنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔