’’میری محبتیں ‘‘کی اشاعت سے پہلے ہی مجھے احساس تھا کہ اس میں شامل بعض شخصیات ایسی تھیں کہ ان پر مزید لکھا جانا چاہئے تھا۔بعض لوگ جن کا بیچ بیچ میں کہیں برسبیلِ تذکرہ نام آگیا ہے‘ان کی زندگی کے بعض خوبصورت انسانی رُخ بھی سامنے آنے چاہئیں تھے۔بہت سارے عزیز اور احباب ایسے ہیں جن کا پورا خاکہ نہیں لکھا جا سکتالیکن ان کے ذکر کے بغیر میری زندگی کی رُوداد بھی ادھوری رہے گی اور میری محبتیں بھی۔۔۔۔۔مزید خاکہ نگاری تو جب بھی ہوئی اپنے وقت پرہو گی۔ فی الوقت میں اپنی زندگی۔۔۔گزاری ہوئی زندگی کی طرف تو پلٹ کر دیکھ سکتا ہوں۔اپنے بہت سارے پیاروں‘رشتہ داروں ‘ دوستوں اور’’کرم فرماؤں‘‘سے تجدیدِ ملاقات تو کرسکتا ہوں۔سو بکھری ہوئی یادوں کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
جرمنی پہنچنے کے بعد بچپن میں امّی جی سے سنی ہوئی کئی کہانیاں یاد آئیں۔مبارکہ جس کی سادگی کا میں پاکستان میں مذاق اڑایا کرتا تھا‘جرمنی میں اب اس کے سامنے میں ایک پاکستانی’’پینڈو‘‘(دیہاتی) تھا۔مبارکہ بچوں سمیت مجھ سے اڑھائی سال پہلے جرمنی میںآچکی تھی اس لئے یہ ملک اس کے لئے اجنبی نہیں رہا تھا جبکہ میں ’’کثرتِ نظّارہ‘‘سے ایسے رُک رُک جاتا تھا جیسے شہر کے چوراہے پر ’’گواچی گاں‘‘ (گمشدہ گائے)کھڑی ہوتی ہے۔پہلی بار ایک مارکیٹ میں داخل ہونا تھا۔میں دروازے کے قریب پہنچا تو آٹو میٹک دروازہ اپنے آپ کھل گیااورمیرا منہ حیرت سے کھل گیا۔امی جی سے سنی ہوئی ’’ علی بابا اور چالیس چور‘‘والی کہانی یاد آگئی ۔اُس کہانی میں ’’کھل جا سم سم‘‘کہنے سے دروازہ کھلتا تھا۔یہاں تو مجھے ’’کھل جا سم سم‘‘کہنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی۔دروازہ اپنے آپ کھل گیا۔زمین دوز ریلوے اسٹیشنو ں میں‘مارکیٹوں میں‘اُوپر نیچے آنے جانے کے لئے خودکا رسیڑھیاںلگی ہوئی ہیں۔میں نے پہلی بار جھجھک کے ساتھ بجلی کی سیڑھی پر قدم رکھا‘ہلکا سا چکر آیا۔میں نے لحظہ بھر کے لئے آنکھیں موندلیں‘جیسے ہی آنکھیں کھولیں‘اُوپر کی منزل پر پہنچ چکا تھا۔کسی اناڑی کی طرح سیڑھی کی حد سے باہر آیاتو امی جی کی سنائی ہوئی کئی کہانیاں یاد آنے لگیں۔کہیں کوئی نیک دل دیو ہے‘کہیں سبز پری اورکہیں کوئی درویش ہے جو مہم جُو شہزادے کو کسی لمبی مسافت کی کوفت سے بچانے کے لئے‘اس کی مدد کرتے ہوئے اُسے آنکھیں مُوندنے کے لئے کہتے ہیں‘پھر جب شہزادہ آنکھیں کھولتا ہے تو منزلِ مقصود پر پہنچا ہوتا ہے۔میں اُوپری منزل پر پہنچا تو میرے ساتھ نہ کوئی نیک دل دیوتھا‘نہ کوئی درویش اور نہ ہی کوئی سبز پری۔۔۔۔صرف مبارکہ میرے ساتھ تھی ۔اس نے اگر سبز سوٹ پہنا بھی ہوا تھا تو وہ اس کے برقعہ کے کوٹ کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ اس کے باوجود میں نے مبارکہ کو من ہی من میں سبز پری سمجھا اور خود کو شہزادہ گلفام سمجھ کر خوش ہو لیا۔
یہاں کے گھروں میںکھڑکیوں کا شیشہ ایسا ہے کہ آپ اندر بیٹھے ہوئے باہر کی ہر چیز کو دیکھ سکتے ہیںجبکہ باہر کھڑا ہوا کوئی آدمی آپ کو بالکل نہیں دیکھ سکتا۔جب مجھے پہلے پہل اس کا علم ہوا دھیان فوراََ سلیمانی ٹوپی والی کہانی کی طرف چلا گیا۔مجھے ایسے لگنے لگا جیسے میں امی جی کی سُنائی ہوئی ڈھیر ساری کہانیوں کا جیتا جاگتا کردار بن گیا ہوں۔ساری کہانیاں جیسے اپنے آپ کو میرے وجود میں دُہرانے لگی ہیں۔ کاش!امی جی زندہ ہوتیں اور میں انہیں اُن کی سنائی ہوئی کہانیوں کا حقیقی رُوپ دکھا سکتا۔اب تو وہ خود ہی کہانی بن گئی ہیں۔
اپنے ہاں تو غالبؔاُس چارگرہ کپڑے کا افسوس کرتے رہے جس کی قسمت میں عاشق کا گریباں ہونا لکھا ہوتا ہے۔اِدھر مغرب میں اُس تین گرہ کپڑے کی قسمت پر رشک آتا ہے جو گرمیوں میں حسینانِ مغرب نے زیب تن کر رکھا ہوتا ہے۔ایک طرف ایسا توبہ شکن منظر ہوتا ہے‘ دوسری طرف برقعہ میں لپٹی لپٹائی مبارکہ بیگم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اسے کئی بار سمجھایا ہے‘پردہ کا مطلب خود کو دوسروں کی نظروں سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔پاکستان میں تو چلو ٹھیک ہے لیکن یہاں جرمنی میں اس قسم کا برقعہ تو پردے کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے ہر کسی کو متجسّس کردیتا ہے کہ یہ کیا شے جا رہی ہے؟میں نے دو تین دفعہ اسے تجربہ کرایا کہ عام آنے جانے والی گوریوں کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا لیکن مبارکہ کے بھاری بھر کم پردے کی وجہ سے ہر گزرنے والا ہمیں تعجب سے دیکھتا ہے اور ضرور دیکھتا ہے۔یوں مبارکہ کی بے پردگی ہو نہ ہومیری اچھی خاصی بے پردگی ہو جاتی ہے۔لیکن اس پر میری کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔
ایبٹ آباد میں قیام کے دوران طاہر احمد کے بعد ایک اور صاحب سے میری گہری دوستی تھی۔یہ سرگودھا کے مسعود انور تھے۔ڈاکٹر انور سدید کے صاحبزادے۔۔۔۔ان کے ساتھ انور سدید صاحب والی نسبت سے تو دوستی تھی ہی‘لیکن ہماری ایک حد تک ہم عمری بھی اس کے استحکام کا باعث بنی۔ادب اورسیاست کی تازہ صورتحال پر ہم کھل کر گفتگو کرتے تھے۔موسیقی سے مسعود انور کو خاصا لگاؤ تھا۔انہوں نے آڈیو اور ویڈیو کیسٹوں کا نایاب ذخیرہ جمع کر رکھا تھا۔کسی لائبریری کی کتابوں کی طرح انہیں ترتیب سے رکھا تھا۔امید ہے ابھی تک اُن کا شوق سلامت ہوگا۔اُن دنوں وہ ذاتی طور پر ویڈیو کیسٹس میں ادیبوں کے انٹرویوز ریکارڈ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔خدا جانے وہ منصوبہ کہاں تک پہنچا۔ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی تھی کہ ہم ایک دوسرے کا مذاق اڑالیتے تھے لیکن ایک دن مسعود نے ایک بات اتنی سنجیدگی اور عقیدت سے کہی کہ ہمیں بھی سنجیدہ ہونا پڑا۔
انہیں کسی زمانے میں سوتے وقت سینے پر بوجھ اور گھبراہٹ کی شکایت ہوجاتی تھی۔معدے کی خرابی ‘سینے کی جلن اور دیگر امکانی بیماریوں کے سارے علاج کرالئے ‘کوئی افاقہ نہیں ہوا۔اس دوران ان کی ایک پِیر سائیں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مسعود کو ہدایت کی کہ گھر کے کمروں کی دیواروں سے ساری تصویریں اتار دیں کیونکہ تصویروں کی اصل رُوحیں رات کو آپ کے سینے پر چلتی ہیں۔مسعود نے ایسا ہی کیا اور حیرت انگیز طور پر صحت یا ب ہو گئے۔ہو سکتا ہے یہ پِیر سائیں کا فیضانِ نظر ہو اوریہ بھی ہو سکتا ہے کہ نفسیاتی اثرہوا ہو۔ نتیجہ بہرحال اچھا رہا۔تب مجھے بھی اُن پِیر سائیں سے ملنے کی خواہش ہوئی‘ لیکن رابطہ ہونے سے پہلے مجھے وطنِ عزیز کو خیر باد کہنا پڑ گیا ۔۔۔۔۔اس قصہ کو سننے کے بعد ایک دن میں اور طاہر شاپنگ کرنے گئے۔وہاں طاہر بڑے شوق سے ریکھا‘سری دیوی ‘ مادھوری اور دوسری مقبول فلمی اداکاراؤں کے پوسٹرز کی قیمتیں معلوم کرنے لگا۔میں نے حیرانی سے اس کا سبب پوچھا‘کیونکہ طاہر کو فلمیریا کی کوئی شکایت نہیں تھی۔سنجیدگی سے کہنے لگا میں چاہتا ہوں راتوں کو ان سب کی رُوحیں میرے سینے پر چلتی رہیں کیونکہ رُوح کا ملن ‘جسم کے ملن سے زیادہ اہم ہے۔اس لئے ان کے پوسٹرز اپنے کمرے میں لگاؤں گا۔
ایبٹ آباد میں ہمارے کالج کے بعض اساتذہ’’مریضانِ محبت‘‘بنے ہوئے تھے۔ایک دفعہ یونہی اُوٹ پٹانگ باتیں ہورہی تھیں۔میں نے ان سے کہا کہ خواہش کی شدت خواب کا رُوپ دھارلیتی ہے۔اگر کبھی کسی کو خواب میں اپنی کوئی پسندیدہ شخصیت کسی من پسند حالت میں دکھائی دے تو بیدار ہونے پر بستر کی پائینتی کی طرف سر کر کے سو جائیں۔اُسی رات آپکی وہ پسندیدہ شخصیت اپنی نیند میں وہی خواب عین اُسی حالت میں دیکھ لے گی۔’’مریضانِ محبت‘‘نے اس فارمولے پر تھوڑی سی بے یقینی اور زیادہ خوشی اور حیرت کا اظہار کیا۔اگلے دن دو نوجوان اساتذہ ڈیوٹی پر آئے تو اُن کی آنکھیں سُرخ اور طبیعت بوجھل بوجھل سی تھی۔ملتے ہی کہنے لگے یار قریشی صاحب! ہم تو ساری رات پائینتیاں ہی بدلتے رہے ہیں۔
خواب کی اس مزاحیہ بات سے اپنی زندگی کے دو واقعات یاد آگئے۔سنجیدہ اور حیران کُن۔۔۔خانپور میں شوگر ملز کی ملازمت کے دوران ایک دفعہ میری شام6بجے سے رات 2 بجے تک والی شفٹ تھی۔گھر سے چلا تو ہلکے سے ٹمپریچر کا احساس ہو رہا تھا‘فیکٹری پہنچنے تک بخار ہو گیا۔میں نے ساتھیوں کو اپنا کام سونپا اور خود لیبارٹری کے ڈارک رُوم میں جاکرلیٹ گیا۔فرش پر فلٹر کلاتھ کا ایک ٹکڑا بچھا ہوا تھا‘ ایک اینٹ کا تکیہ بنا لیا لیکن اُوپر لینے کے لئے کوئی کپڑا نہیں تھا۔بخار کی وجہ سے ٹھنڈ بھی لگ رہی تھی۔میں اپنے آپ میں سمٹ کر ٹھنڈ سے بچنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔اسی دوران بخار کی غنودگی کی حالت میں ایسے لگا جیسے کسی نے آکر گرم رضائی میرے اُوپر ڈال دی ہو۔کسی کے آنے‘اپنے اُوپر رضائی ڈالے جانے اور پھر اس رضائی کو اپنے دائیں ‘بائیں اچھی طرح لپیٹنے کا عمل مجھے صاف صاف محسوس ہوا تھا۔پھر مجھے گہری نیند آگئی۔رضائی کی گرمائش سے کھل کر پسینہ آیا ۔
چھٹی کے پہلے سائرن کے ساتھ میری آنکھ کھلی تو مجھے محسوس ہوا بخار اُتر چکا ہے۔میں نے رضائی کو اپنے اُوپر سے ہٹاکر اُٹھنا چاہا۔لیکن میرے اُوپر تو کوئی رضائی نہیں تھی۔پھر یہ سب کیا تھا؟۔۔ ۔ ۔ میں نے ابا جی کو یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا ایسے واقعات کو کسی کے آگے بیان نہیں کرنا چاہئے ورنہ انسان ایسے تجربات کی لذّت سے محروم کردیا جاتا ہے۔(ابا جی کی وفات کے بعد ابا جی کے تعلق سے ایک تجربے کے بعد مجھے باباجی نے بھی ایسی ہی نصیحت کی تھی۔لیکن شاید مجھ میں اخفاء کی، برداشت کی، قوت نہیں ہے) ۔(’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ کے پہلے باب کا ابتدائی حصہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔