’’آؤ آؤ۔۔۔۔۔!!وقت بڑا ظالم ہے۔۔اس کے وار سے بچنے کے لئے ستاروں کی چال سے باخبر ہونا ضروری ہے۔‘‘ادھیڑ عمر پروفیسر نے اپنی عینک کے موٹے شیشوں سے نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’پروفیسر !!میں نے آج پھر ایک نوکری کے لئے انٹرویو دینا ہے ۔‘‘
پروفیسر نے ایک بڑے سے فریم میں زائچے کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے نوجوان کی طرف دیکھااور پھر کاغذ پر کچھ ہندسے اور لکیریںکھینچنے لگا۔
’’نئے سال کے آغاز سے چودہ فروری تک مشتری بارھویں گھر میں رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے چند برسوں سے اہلِ حمل زحل کی ساڑھ ستی سے گزر رہے ہیں ۔دو مارچ کو زحل برج ثور میں داخل ہو گا۔حمل سے زحل کا انخلا خوش بختی کی بنیاد ثابت ہو گا۔مگر خانۂ مال میں زحل کے داخل ہوجانے سے ابھی مالی بحران مزید بڑھ جائے گا۔مالی لحاظ سے ابھی زحل کی نحوست برقرار رہے گی۔اس لئے تمام مالی منصوبے غیر ضروری اور غیر متوقع تاخیر اور ناکامی سے دوچار ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ نوکری بھی تمہارے لئے سعد نہیں ثابت ہو سکتی ۔‘‘
’’لیکن پروفیسر میں نے پچھلی چار نوکریاں تمہارے کہنے پر چھوڑ دیں ۔اور ۔۔۔اور ۔۔۔۔۔!!‘‘
’’اگر تم کرتے تو بڑے امتحانوں میں مبتلا ہو جاتے ۔تم نے ستاروں کے مطابق فیصلہ کر کے اچھا کیا ہے۔‘‘
’’پروفیسر !تم دوسروں کے بارے میں اتنا کچھ جان لیتے ہو ،کیا اپنا حساب بھی کرتے ہو؟‘‘
’’نہیں ۔میں نے اپنا حساب کبھی نہیں کیا۔میں انسانیت کی خدمت میں اپنے بارے میںنہیں سوچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!‘‘
’’اسی لئے تمہارے چہرے پر ہر وقت ایک مسکراہٹ کھیلتی رہتی ہے۔تمہاری لاعلمی نے تمہیں خوش رکھا ہے۔‘‘
’’ہاں ،تم کچھ بھی سوچ سکتے ہو۔دوسروں کی فکر کرنے والوں کو خود سے بے نیاز ہونا پڑتا ہے۔‘‘
’’اسی لئے میں نے تمہیں کبھی پریشان نہیں دیکھا۔تمہارے چہرے پر ایک مسکان ہمیشہ رقص کرتی رہتی ہے۔اور تم ہم جیسے پریشان حالوں کو بڑے اطمینان سے ہمارے ستاروں کی چالیں بتاتے رہتے ہو۔تمہارے بچے کتنے ہیں پروفیسر۔۔۔۔؟؟‘‘نوجوان نے آج پہلی بار پروفیسر کی نجی زندگی کے بارے میں سوال کیا۔
’’میں نے شادی نہیں کی ۔ ماں باپ میرے بچپن میںہی مر گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔یہی میرا گھر ہے ۔۔۔۔۔!!‘‘
’’تمہارا کوئی وارث نہیں ہے۔۔۔؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔تمہاری شادی نہیں ہوئی ۔۔۔ماں باپ نہیں ہیں ۔۔۔۔۔اور تم ۔۔۔۔تم ۔۔۔مطمئن ہو۔۔۔۔؟؟؟
اس لئے کہ تم اپنے ستاروں کی چال نہیں جانتے ۔۔۔۔۔۔جاننا ہی نہیں چاہتے؟؟‘‘نوجوان کے چہرے سے حیرت اچانک اُڑی اور عجیب سا سکون آکر بیٹھ گیا۔ایک مسکان اُس کے چہرے پر دوڑنے لگی۔
’’ پروفیسر ! تم خوش قسمت ہو ۔ تمہیں یہ نہیں پتہ کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔۔اسی لئے تمہیں آنے والے وقت کا خوف ہی نہیں ۔۔۔۔مجھے اب سمجھ آگئی ہے ۔اپنے ستاروں کی چال کا جاننا ضروری نہیں ہوتا ۔۔‘‘
نوجوان نے اچانک زائچے والی بڑی فریم اٹھائی اور اُسے پوری قوت سے پروفیسر کے سر پرمار دی۔خون کا فوارہ پھوٹا۔پروفیسر کا سر ایک طرف لڑھک گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آؤ آؤ۔۔۔۔۔۔!!۔۔وقت بڑا ظالم ہے ۔۔۔۔۔اس کے وار سے بچنے کے لئے ستاروں کی چال سے باخبر رہنا ضروری ہے ۔‘‘
ٓٓنوجوان نے آنے والے شخص کو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے زائچے والی بڑی فریم میں زحل کے خانے کو دیکھا۔۔۔۔۔اس کے چہرے پر فکر مندی کے تاثرات ابھرنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔