کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کی زندگی میں کم از کم ایک ناول ضرور ہوتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنے سوانحی حالات قلمبند کرے توایک ناول وجودمیں آسکتا ہے بشرطیکہ اس کا ایسا ارادہ ہو اور اس نے کرداروں‘ مقامات اور واقعات کی طنابوں کو حقائق(Facts) کی مضبوط کھونٹیوں سے نہ باندھ رکھاہو۔ ممتاز مفتی نے علی پور کا ایلی تھرڈ پرسن یا واحد غائب کے پوائنٹ آف ویو سے لکھا مگر نام و مقام کی طنابوں کو حقائق( Facts )کی کھونٹیوں سے باندھنا ضروری نہ سمجھا۔ اس کے بعد وہ زندگی بھر اصرار کرتے رہے کہ یہ ان کی اپنی سرگذشت ہے مگر اہل نقد و نظر نے اسے ناول ہی قرار دیا۔ مگر ’’الکھ نگری‘‘ میں وہ واقعات کی طنابوں کو کھونٹیوں سے باندھنا نہیں بھولے‘ اس لئے کسی کو اس میں شک نہیں کہ یہ سوانح ہے‘ ناول نہیں۔
سوانحی ناول اورسوانح کے اسلوب میں دو سرا فرق یہ ہے کہ اول الذکر میں فکشن کی آمیزش یا اس کی گنجائش موجود ہوتی ہے اور لکھنے والے کو زبان و بیان کی آرائش و زیبائش‘ تشبیہہ‘ استعارے اور تخیل آفرینی کے مواقع حاصل ہوتے ہیں ۔جب کہ سوانح میں اس کی گنجائش ہوتی ہے نہ ضرورت۔ اس میں سادگی اور سادہ نگاری تک محدود رہنا پڑتا ہے۔ اس لئے سوانح نگار کا کام اور مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ محفلِ ادب میں بن سنور کرنہیں سادہ لباس میں آتا ہے اور اسے اپنی باتوں اور رویے سے دوسروں کو متاثر کرنا اور خود کو منوانا پڑتا ہے۔ سوانحی ناول کی ایک بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی ایک شخص کی داستان حیات ہوتے ہوئے بھی ہر زمانے میںکئی دوسرے لوگوں کی سرگزشت بھی بن جاتا ہے۔ جبکہ سوانح پر مصنف کے نام کی مہر لگی ہوتی ہے اور اس کے جملہ حقوق محفوظ ہو تے ہیں۔ لیکن اس سے سوانح کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ لکھنے والا اگر اچھا جملہ لکھنے پر قادر ہے اور سادہ الفاظ میں اثر آفرینی پیدا کرنے کا گر جانتا ہے تو اچھے طریقے سے لکھی ہوئی سوانح کمزور ناول پر بھاری ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوانح کے مواد اور مندرجات پر منحصر ہے کہ وہ ایک شخص کی ذاتی زندگی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے یا اس کا کینوس زندگی اور فن کی طرح وسیع ہے۔
اکبر حمیدی کی ’’جست بھر زندگی‘‘ ایسی ہی خود نوشت سوانح ہے جو ان کی ذاتی اور شخصی زندگی کی حدود پھلانگ کر دوسروں کی دلچسپی اور غور و فکر کے مطالعے کی چیز بن گئی ہے۔ ان کے تجربات‘ مشاہدات اور حاصلِ زیست نتائج ہر شخص کے لئے دعوتِ فکر رکھتے اور زندگی کرنے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں۔ زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں‘ ان کی سوانح پڑھ کر خود مجھے لگا جیسے انہوں نے اپنی نہیں میری سوانح لکھی ہے۔ وہی ’’میں نے یہ جاناکہ گویایہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ والی بات۔ انہوں نے وہی سارے سوال اٹھائے جو اکثر میرے ذہن میں بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں او ران سوالوں کے جوابات بھی ویسے ہی دئیے جیسے میں دینا مناسب سمجھتا۔ میری اور ان کی سوچ ہی میں نہیں سوانح حیات میں بھی حیرت انگیز مماثلت ہے اور مجھے یقین ہے میرے اور اکبر حمیدی جیسے اور بہت سے ایسے ہوں گے جن کو اس میں اپنا چہرہ نظر آئے گا۔
اس کتاب کی دوسری خوبی یہ ہے کہ ایک پورے دور کی معاشرت کو جو آنکھوں سے اوجھل ہو رہی ہے پوری جزئیات اور سچائی کے ساتھ بیان کرتی اور اسے تاریخ میں محفوظ کرتی ہے۔ اپنے عزیز و اقارب کے رویو ں اور ماحول کو بیان کرتے ہوئے وہ اپنے پورے گائوں، شہر اور ارد گردکی زندگی کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ مارکیٹ کمیٹی کی ملازمت کے لئے گوجرانوالہ آتے ہیں تو اکیلے نہیں۔ لگتا ہے پورا فیروز والا ساتھ آگیا ہے۔ اسلام آباد منتقل ہوتے ہیں تو اپنے ساتھ گائوں ہی نہیں اسلم سراج‘ انصر علی انصر او رمحمود احمد قاضی سمیت پورا گوجرانوالہ اٹھا لاتے ہیں اور کئی برس گزر جانے کے بعد بھی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں میں چھوٹے شہر کے بڑے لوگوں میں سے بڑے شہر کے چھوٹے لوگوں میں آگیا ہوں۔ وہ الگ بات ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اکبر حمیدی نے مستقل رہائش کے لئے اسلام آباد ہی کا انتخاب کیاہے ۔
اکبر حمیدی نے اس کتاب کو ادبی کتاب بنانے کا ارادہ کیا اور یہ ہر اعتبار سے ایک ادبی کتاب بن گئی ہے۔ اس میں نہ صرف شعر و ادب سے متعلق شخصیات کا بھر پور ذکر ہے۔ بلکہ اس میں کردار نگاری‘ خاکہ نویسی‘ ماحول کی عکاسی‘ انسانی جذبوں اور جذبات کا اظہار اور ایک خاص ادبی شان و شوکت ملتی ہے۔ ایسی باتوں سے احتراز کیا گیا ہے جو ذوق سلیم پر گراں گزر سکتی ہیں یا جن پر اختلاف رائے پایا جاتا ہو۔ عقائد و نظریات کے اعتبار سے بھی کسی کی دلآزاری نہیں کی گئی۔ اگر والد اہلِ حدیث کی مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں یا والدہ کو امام بارگاہ میں مجلس سننا اچھا لگتا ہے تو اس میں کوئی ہرج نہیںسمجھتے۔ ہر کسی کی خواہش کا احترام پایا جاتا ہے۔ زندگی کے چھوٹے چھوٹے اور معمولی واقعات کو ایک بڑے ادیب کی طرح انہوں نے اہم تر بنا دیا ہے اور ان سے بڑے بڑے نتائج اخذ کئے یا پڑھنے والے کو سجھائے ہیں۔ اپنے والد کی گرم مزاجی کی وجہ سے ان کی ملازمت سے برطرفی او رمقدمات کا سامنا کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یہ دو سال کا عرصہ بڑی مصیبت کا عرصہ تھا۔ مجھے یاد ہے اتنے بڑے واقعہ سے ابا جی نے کوئی سبق نہ سیکھا تھا۔ کچھ لوگ دنیا میں سبق سیکھنے کے لئے نہیں‘ سبق سکھانے کے لئے آتے ہیں۔ ابا جی انہی لوگوں میں سے تھے‘‘
کیا اتنے کم الفاظ میں کسی شخص کی پوری شخصیت اور مزاج کا احاطہ کیا جا سکتا ہے؟ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کومنٹس اور خود کلامیوںسے وہ کرداروں اور صورت حال کی سچی تصویریں پیش کرتے چلے جاتے اور ساتھ ہی اپنی تحریر کو اعتبار بخشتے جاتے ہیں کہ وہ جس سچائی کے دعویدار ہیں وہ ان کی پوری کتاب میں موجود ہے۔وہ محض واقعات بیان نہیں کرتے بلکہ زندگی اور انسانی رویوں پر جگہ جگہ اپنے دانشورانہ کو منٹس دیتے چلے جاتے ہیں۔ اور یہی چیز اس کتاب کو ادبی بناتی اور اس کے لکھے جانے کا جواز مہیا کرتی ہے۔ ایک اقتباس دیکھئے:
’’شاندار کردار حسن و رعنائی کا ایسا درخت ہے جس کے سائے میں آئندہ نسلیں حسن و خیر اور تہذیب کا درس لیتی ہیں۔ یہ صدقہ ئِ جاریہ ہے جس سے پوری انسانیت فیض یاب ہوتی ہے جسے دیکھ کر لوگ گھٹیا پن سے احتراز کرنے لگتے ہیں۔ لوگوں میں شاندار زندگی بسر کرنے کی امنگ پیدا ہوتی اور وہ شرافت سیکھتے ہیں۔‘‘
اسی طرح پہلے باب (صفحہ 50) کے ابتدائیے میں وہ جنگل کے استعارے کو جس خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں وہ اعلیٰ درجے کی فکشن کی خوبصورت مثال ہے۔
بعض لوگوں کے نزدیک ایک اچھی خود نوشت کی خوبی یہ ہونی چاہئے کہ اس میں اپنی خوبیوں کے ساتھ خرابیوں کا بھی ذکر ہو‘ تاکہ ایک طرح کا توازن قائم رہے۔ جہاں تک انسانی کمزوریوں ‘کم مائیگیوں اور بد قسمتیوں کا تعلق ہے اکبر حمیدی نے ان کے ذکر سے کہیں اجتناب نہیں کیا۔ بچپن میں جب وہ بگڑا ہوا بچہ تھے اکثر رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے مار کھا کر آتے اور اس کا انتقام اپنی سادہ لوح اور محبت کرنے والی دادی کو زچ کرکے لیتے تھے۔ انہوں نے اپنی اس غیر مناسب عادت کا کھل کر ذکر کیا ہے کہ وہ دادی کو کوئی خاص چیز پکانے کی فرمائش کرتے مگر کھاتے وقت بگڑ جاتے کہ یہ کیوں پکائی ہے اور دادی بے چاری کو منت سماجت کرنا پڑ جاتی۔ ویسے بچپن کی یہ ٹیڑھ ان میں اب تک موجود ہے۔اکبر حمیدی میں 101 خوبیاں ہیں۔ اور خرابی صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ جس بات یا موقف پر ایک بار ڈٹ جائیں لاکھ سرکھپاتے رہو۔ دنیا بھر کی تاویلات لاتے اور دلائل دیتے رہو سرِموُادھر ادھر نہ ہوں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی خود نوشت میں اپنی ذات سے متعلق کوئی بھی اہم اور قابل ذکر بات چھپائی ہے نہ اپنے کسی رویے کی غیر منطقی توجیح اور وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اگر اکبر حمیدی جیسے سادہ مزاج دیہاتی اور فطرتاً شریف آدمی کی زندگی میں جو صراط مستقیم پر چلتا ہو‘ سرے سے کوئی بڑی کمزوری یا سیکنڈل موجود ہی نہ ہو تو داستان رنگین کیسے بنے؟۔ میں جانتا ہوں خاندانی آدمی کو اپنی ذات سے زیادہ اولاد اور خاندان کی عزت اور وقار عزیز ہوتا ہے۔ وہ چاہے بھی تو غلط راستے پر نہیں چل سکتا۔ پھر بھی ان کی کتاب سیکنڈلز سے یکسر تہی دامن نہیں۔ضروری تو نہیں ہوتا کہ سیکنڈل جنسی ہی ہو۔ اس کتاب میں حلقہ ارباب ذوق میں پھڈا کے عنوان سے ایک سیکنڈل تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ سیکنڈل کا پنجابی ترجمہ پھڈا ہی تو ہے۔ اس میں اکبرحمیدی نے 99 فیصدی سچ لکھا ہے۔ باقی کا ایک پرسنٹ بھی سچ ہی ہے مگر یہ ان کا اپنا سچ ہے۔
اکبر حمیدی کی سوانح حیات میں اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں۔ مثلاً انہوں نے عزیز و اقارب ہی کو نہیں اپنے ادبی دوستوں‘ استادوں‘ محبت کرنے والوں اور مہربانوں کی نیکیوں اور حسنِ سلوک کا کھل کر اعتراف کیا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس طرح کتاب میں اور بہت سے لوگوں کے چھوٹے چھوٹے خاکے شامل ہو گئے ہیں جن سے ان کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کتاب میں ایک اہم شاعر ایک بڑے انشائیہ نگار اور ادیب اور ایک سیلف میڈ انسان کی زندگی کا سفر اور کامیابی کے لئے جدوجہد کا احوال قارئین کوزندگی کے ایک بڑے تجربے سے آشنا کرتا ہے۔ ناول اور افسانہ بھی یہی فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔ہم ان کے ذریعے دوسروں کے تجربات اورمشاہدات میں شریک ہوتے ہیںاور کچھ دیر کے لئے ان کی زندگی جیتے ہیں۔ جس سے ہمارا ویژن وسیع ہوتا ہے۔ اکبر حمیدی کی یہ کتاب نیکی‘ خیر‘ شرافت اور محبتوں کے فروغ کا پیغام دیتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا شمار اردو میں لکھی جانے والی چند بہترین ادبی سوانح عمریوں میں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔