روشنی کا استعارہ کر لیا
دل نے ہر آنسو ستارا کر لیا
بے وفا دنیا سے کچھ تو نبھ گئی
ساتھ کیا تھا بس گزارا کر لیا
گلستاں اُس نے کیا تھا آگ کو
ہم نے شبنم کو شرارہ کر لیا
کم نہیں ہم بھی ثمود و عاد سے
کیوں لحاظ آخر ہمارا کر لیا
تیری وحدت سے سمجھ پائے تجھے
اور کثرت میں نظارہ کر لیا
کون ہے پھر اب مِرے دُکھ کا سبب
خواہشوں سے تو کنارا کر لیا
آج حیدرؔ موڈ ہی کچھ اور تھا
سو غزل میں استخارہ کر لیا
٭٭٭