تاج محل
پہلی بار جب میں آگرہ گیا تھا تو تاج محل ہی دیکھنا مقصد تھا۔اس دیدار کا اثر آج بھی ذہن و دل پر قائم ہے۔ٹرین ابھی آگرہ پہنچی بھی نہیں تھی کہ ایک مسا فرچیخ اُٹھا،وہ رہا تاج محل۔میں نے جلدی سے اپنا چہرہ کھڑکی کی طرف بڑھا یا ۔دن کے اجالے میں تاج محل کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا ۔چو نا کا ری کی ہوئی ایک مسجد کی طرح ۔یہی ہے تاج محل؟پھر بھی میں اس کو دیکھتا رہا ۔جو بھی ہو، ہے توتا ج محل،شا ہجہا ں کا تا ج محل۔شاہ جہا ں آگرے کے قلعے میں بیٹھا ہوا اس کے نظارے سے محظوظ ہو تا تھا۔ ممتاز کی چاہت کا نمو نہ ، تاج محل۔۔۔۔۔۔۔۔ عالمگیر ظالم نہیں تھا ۔اس نے والد کی خواہش کو ادھو را نہیں چھوڑا ۔۔۔۔۔۔۔ جشن کا زبر دست جلو س ۔شہنشاہ شا ہجہاں اپنی منظور نظر سے ملنے کے لیے بڑھتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جدائی بر دا شت نہیں ہو ئی ۔جسم آہستہ آہستہ قبر میں اتر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اسی تا ج محل میں ممتاز کے ٹھیک پہلو میں اُس کی میت پہنچنے کے لیے بیتاب،ایک قبروہاںاور تھی ۔ہوسکتا ہے ابھی بھی ہو، اسی تاج محل کے پاس ۔۔۔۔دا را شکوہ کی ۔۔۔۔چونا کاری کی ہوئی عام مسجد کی مانند نظر آنے والا تا ج محل دیکھتے دیکھتے نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
پو رنیما کا دو سرا دن تھا۔ابھی چا ند نہیں نکلا تھا۔ پھربھی رو شنی کی کر نیں پو ری کائنات میں بکھری ہوئی تھیں ۔اس دن شام کے وقت دو سری بار میں تاج محل کے دیدار کے لیے گیا۔ وہ محسو سا ت آج بھی ذہن میں محفو ظ ہی ۔گیٹ پار کر کے میں جیسے ہی اندر دا خل ہوا تو کانوں میں بد بداہٹ کی آواز آئی ۔اِرد گرد سے نہیں بلکہ ایسا لگا کہ ما ضی بعید سے کوئی آواز آرہی ہے ۔بد بد اہٹ نہیں بلکہ دبی ہو ئی سسکی کی آواز تھی ۔اندھیرے کو چیر کر جو روشنی آرہی تھی کیا یہی تاج محل ہے ؟ میںآہستہ آہستہ آگے کی طرف بڑھتا رہا ۔ مینار و گنبد اب واضح ہو نے لگے ۔فرحت کا احساس اندھیر ے کو چیر کر شعا عوں میں بکھرنے لگا ۔اس کے بعد شعور مکمل طور پر بیدار ہو گیا ۔چا ند نکل آیا۔روشنی کی شفاف چا در میں ملبوس شاہجہاں اور ممتاز ،خوابو ں کی اس دنیا میں میرا استقبال کر رہے تھے ۔میںمحو حیرت ہو کر انھیں دیکھتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔
اس کے بعد بہت دن بیت گئے ۔
کس کنٹر اکٹر نے تا ج محل سے کتنا پیسہ کما یا ،کون سا ہو ٹل والا تا ج محل کی بدولت راجہ بن گیا، پھیری لگا نے والے چھو ٹے چھوٹے پتھروں سے تاج محل بنا کر روزانہ اچھی خاصی کما ئی کر تے ہیں، تانگہ والے معصوم اور نئے مسا فروں سے زیادہ سے زیادہ کرایہ کس طرح اینٹھ لیتے ہیں ،یہ تمام خبریں پرانی ہو گئی ہیں۔ سورج اور چاند کی رو شنی صبح و شام ، سردی ،گرمی اور برسات میں بہت بار میں نے تاج کو دیکھا ہے۔ اتنی بار دیکھا ہے کہ اب آنکھوں میں وہ چمک نہیں رہی۔ قریب جا نے پر بھی پہلے جیسی کیفیت پیدا نہیں ہو تی۔ آج کل تو روز ہی تاج محل کے قریب سے گزرنے کا موقع ملتا ہے۔
میں آگرے کے پاس ہی ایک اسپتال میں ڈاکٹر بن کر آیا ہوں۔ تاج محل کے لیے اب کوئی للک نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ایک دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے تب ابتداہی سے سنئے !
اس دن آئو ٹ ڈور کا را ئو نڈ دیکر ،جب میں بر آمدے میں پہنچا تو دیکھا کہ ایک ضعیف مسلمان گیٹ سے دا خل ہو رہا ہے ۔اس کی پیٹھ سے ایک ٹوکری بندھی ہو ئی ہے ۔ ٹوکری کے بوجھ سے بیچا رے کی کمر جھک گئی تھی ۔مجھے لگا کوئی میوہ والا ہے۔ ٹوکری کے اتر تے ہی میں نے دیکھا کہ ٹوکری کے اندر میوہ نہیں بلکہ برقعہ پہنے ہو ئے ایک عو رت تھی ۔ اس ضعیف کا چہرہ بہت حد تک پا گلوں جیسا تھا، بے ترتیب پوشاک اور بالکل سفید دا ڑھی تھی۔آگے بڑھ کر سلا م کرتے ہو ئے اس نے سلیس اردو میں کہا ’’اپنی بیگم کو پیٹھ پر ڈھو کر آپ کے پاس لا یا ہوں دکھا نے کے لئے ‘‘ : وہ بہت غریب آدمی تھا ۔مجھے گھر لے جا کر فیس دینے کی طا قت اس میں نہیں تھی ۔میں اگر مہر با نی کر کے . ۔ ۔ . ۔ ۔ اس کے قریب جا تے ہی بدبو کا احسا س ہوا ۔اسپتال کے اندر جاکر بر قعہ کھولتے ہی (وہ بہت زیادہ مزاحمت کر رہا تھا )معاملہ سمجھ میں آیا۔ Cancrumoris کا روگ تھا۔
تقریباًنصف چہرہ گل چکا تھا۔داہنی طرف گال نہیں تھا۔دا نت وغیرہ خطرناک حد تک با ہر نکلے ہو ئے تھے ۔بد بو سے اس کے سا منے ٹھہر نا دشوار ہو رہا تھا ۔دور سے ڈھو کر لا نے سے مریضہ کا علاج نہیں ہو سکتا ۔In doorمیں بھی میرے یہا ں جگہ نہیں تھی ۔اس لیے اسپتال کے بر آمدے میں رکھنے کو کہا ۔لیکن آخر کار بر آمدے میں بھی رکھنا نصیب نہیں ہوا!بہت زیادہ بد بو آرہی تھی ۔دو سرے مریض اعتراض کر رہے تھے ۔کمپا ئونڈر ،ڈریسر ، یہا ں تک کے مہتر بھی قریب جانے کے لیے تیار نہیں ہو رہے تھے ۔ لیکن بوڑھا ان باتوں سے بے پر واہ دن رات اس کی خدمت پر مامورتھا ۔ اعتراض کے بعد مریضہ کو بر آمدے سے ہٹانا پڑا ۔اسپتال کے قریب ایک بڑا سا درخت تھا،میں نے اس کے نیچے ٹھہرنے کے لیے کہا۔اس لیے وہ وہیں رہنے لگا۔ اسپتال سے روزانہ دوالے جاتا۔میں بیچ بیچ میں جا کر انجیکشن دے آتاتھا۔اسی طرح علاج چل رہا تھا ۔
ایک دن مو سلا دھار با رش ہو نے لگی۔میں ایک callپر گیا ہو ا تھا واپسی کے وقت میں نے اچا نک دیکھا کہ بو ڑھا بھیگ رہا ہے۔ایک چا در کے دو کونوں کو در خت سے باندھ رکھا تھا اور دو کو نو ں کو پکڑے ہو ئے بھیگ رہا تھا۔چا در کے نیچے تھیں بیگم صاحبہ بیچا رہ کھڑا کھڑا اپنی بیو ی کی خدمت پر ما مور بھیگ رہا تھا۔میں نے مو ٹر کو گھُمایا ۔ایک معمولی چا در سے با رش کو رو کا نہیں جا سکتا۔میں نے دیکھا کہ بیگم صاحبہ بھیگ کر کانپ رہی ہیں ۔نصف چہرے پر عجیب قسم کی مسکان تھی۔بخار سے جسم تپ رہا تھا۔
میں نے کہا فی الحال اسپتال کے بر آمد ے میں لے چلو۔بو ڑھے نے اچا نک سوال کیا، اس کے بچنے کی کوئی امید ہے حضور !مجھے سچ کہنا پڑا ’’نہیں ‘‘!
بو ڑھا چپ چاپ کھڑا رہا ۔میں چلا آیا ۔د وسرے دن دیکھا کہ در خت کے نیچے کوئی نہیں تھا ۔خالی تھی وہ جگہ ۔
اور کچھ دنو ں کے بعد،اس دن بھی کسی Callکے بعد واپس آرہا تھا ۔ایک میدان سے گزرتے ہو ئے میں نے بو ڑھے کو دیکھا۔ معلوم نہیں بیٹھے بیٹھے کیا کر رہا تھا ۔ دوپہر کی چلچلا تی دھو پ تھی ۔وہا ں پر بوڑھا کیا کر رہا ہے ؟میدان کے بیچ میں بیمار بیگم کو لیکر کسی مشکل میں پڑ گیا ہے کیا ؟میں آگے بڑھا ۔کچھ ٹوٹی پھو ٹی اینٹیں اور گا را لے کر بو ڑھا کچھ گا نتھ رہا تھا ۔
’’کیا ہورہا ہے میا ں صاحب؟‘‘
بو ڑھے نے پو رے احترام کے سا تھ اٹھتے ہو ئے مجھے سلام کیا ۔’’بیگم کی قبر تیار کر رہا ہو ں حضور!‘‘
’’قبر ؟‘‘
جی حضور!
میں چپ چاپ بیٹھا رہا ۔کچھ دیر کی بور کر دینے والی خامشی کے بعد میں نے پو چھا ’’تم کہاں رہتے ہو ؟
’’آگرے کے آس پاس گھوم گھوم کر بھیک ما نگتا ہو ں غریب پر ور!‘‘
’’تم کو تو میں نے وہاں کبھی دیکھا ہی نہیں ۔کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘
’’فقیر شا ہجہا ں !‘‘
میں حیران سا کھڑا رہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔