عورت ،جو خود تخلیق کا استعارہ ہے ۔ وہ شعر و ادب کا موضوع بننے کے ساتھ ہی تخلیق کار کے روپ میں بھی سامنے آتی رہی ہے۔ عالمی ادب میں خواتین نے شاعری کے شعبہ میں بھی اپنی حاضری درج کرائی ہے۔ اور اپنے خیالات و افکار کی ضیاپاشیوں سے اسے منور کیا ہے۔ فرحت نواز کا تعلق ان خواتین شعراء میں ہوتا ہے ؛جنہوں نے شعر و سخن کی دنیا میںپورے اعتماد کے ساتھ قدم رکھا ہے۔
’’استعارہ مرِی ذات کا‘‘ فرحت نواز کا شعری مجموعہ ہے جو عکاس انٹر نیشنل پبلی کیشنز ،اسلام آباد سے شائع ہوا ہے۔ یہ مجموعہ ان کی نظموں ،غزلوںاور ماہئے پر مشتمل ہے۔فرحت نے شاعری کے ساتھ ساتھ ادبی مجلّہ ’’جدید ادب ‘‘ کی ادارت بھی سنبھا لی ۔ شاعری جسے انہوں نے برسوں جلا وطن کر رکھا تھا، ذہن پر اس کی بارہا دستک نے انہیں پگھلا دیا۔ یہ مجموعہ ان کی ذات کے لئے شاعری کی گھر واپسی ہے۔ جو ان کے ذ ہنی خالی پن کو دور کرتی ہے۔ شعر و ادب سے ان کا رشتہ کوئی نیا نہیں ہے اس سلسلے میں وہ راقم ہیں:
’’لگ بھگ دو دہائی پہلے ملکِ ادب سے خود اختیاری جلاوطنی کا فیصلہ کرتے وقت مجھے بالکل یہ خیال نہ آیا تھاکہ جن لفظوں سے میں آنکھ چرا کے جا رہی ہوں وہ پیچھے سے مجھے بلاتے رہیں گے۔ان کی آواز پر میں کئی بار پتھرہوئی اور ان کی محبت کے جادونے مجھے کئی بار زندہ کیا۔اس خود اختیاری جلا وطنی کے دوران اس آواز سے میں اپنا تعلق نہیں توڑ سکی۔شادی کے بعد گھر،شوہر اور بچوں کی ذمہ داریاں نبھائیں اور ان ذمہ داریوں کو بھی شعری لطافتوں کا ایک روپ سمجھا۔زندگی کے روایتی رویوں میںانہیں لطافتوں نے مجھے شعرو ادب سے یکسر دور نہیں جانے دیا۔ان لطافتوں سے میرا رشتہ بہت پرانا ہے،تب کا جب شوخ عمر میں دھڑکن کی تال پر جذبوں کی دھمال شروع ہوئی۔ ‘‘
’’استعارہ مرِی ذات کا‘‘کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی عورت کی داستان ہے جو اپنی حیثیت کے باعث دو لخت ہے۔اور باطنی طور پر اپنے آپ سے مصروفِ جنگ رہتی ہے ۔ فرحت کی شاعری میں ان کی ذات(عورت ) ایک مستقل استعارہ بن جاتی ہے۔ وہ ایک ایسے روایتی معاشرے میں زندہ ہے جہاں عورت کی کامیابی کی انتہا ایک آسودہ زندگی کو سمجھا جاتا ہے۔مشرقی عورت کی تمام تر تعلیم و تربیت بھی اسی ایک مقصد کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے کہ وہ ایک اچھی بیوی اور بہترین ماں ثابت ہو سکے۔اس کی اصل شخصیت ،اس کی خواہشیں،فکری بالیدگی،معاشرے کے فرد کی حیثیت سے اس کی صلاحیتوں کی نشونما اور نسائی شعور کو چنداں اہمیت نہیں دی جاتی۔یہی وجہ ہے کہ معاشرہ میں بحیثیت ایک خودمختار فرد’ عورت‘ اپنی ہستی کھو نے لگتی ہے۔فرحت کی شاعری میں نسائی کردار ہر اس عورت کی داستان معلوم ہوتا ہے ؛جو آج اس معاشرے میں اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی ہے۔ شاعری ذات سے کائنات کا سفر طے کرتی ہے۔ فرحت کی شاعری ان کی شخصیت اور ذاتی زندگی کی آئینہ دار ہے۔اپنی شاعری میں وہ تمام تجربات و کیفیات کو سمو دیتی ہیں جس سے ان کوزندگی کے مختلف مراحل میںگذرنا پڑا ۔یہی ان کے کلام کی سب سے نمایاں خوبی ہے کہ انہوں نے ذات کے حوالہ سے کائنات کی تفہیم کی ہے۔وہ اپنی ذات کو شاعری کے کینوس پر یوں بکھیرتی ہیں کہ مشرقی عورت کی ایک واضح تصویر نظروں میں پھر جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں عورت کا دھڑکتا ہو ادل صاف محسوس ہوتا ہے۔بچپن کی یادوں کی جھلکیاں،گھریلو زندگی کیرعنائیاں ،محبت و عشق کے جذبات،زمانے کی سختیاں اور انسانی و اخلاقی عنصر ان کی شاعری کا خاصہ ہیں۔
فرحت کی شاعری میں عشق کی ایک دبی دبی سی کیفیت کا اظہار ملتا ہے۔ان کے شعری کلام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس میں عشق کی وارفتگیوں کے ساتھ ساتھ ہجر و وصال کی رنگینیاں بھی ہیں۔ وہ عشق کرتی ہیں مگر تہذیب و شائستگی کے دائرہ میں رہ کر۔ان کے ہاں عشق آرزوؤں اور حسرتوں کے سنگم سے بار پاتا ہے۔
ان کی شاعری میں ایک ایسی عورت کا تصور ابھرتا ہے جو زندگی کی تمام تر آسائشوں کے باوجود غیر مطمئن سی ہے۔زندگی کو بھرپور طور پر گزارنے کی خواہش بعض اوقات ادھوری سی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے کلام میں یہ کسک عورت کی تڑپ کا اظہاریہ ہے۔وہ عورت کی نام نہاد آزادی سے زیادہ اس کی خودمختاری کی قائل ہیں۔وہ تا نیثیت کی تحریک کی نمائندہ کے طور پر سامنے نہیں آئیں ۔فرحت نے ایک خاتون کی حیثیت سے نسائیت کے بعض ایسے نفسیاتی کوائف اور جذبوں کی ترجمانی بھی کی ہے جو کسی مرد شاعر سے ممکن نہ ہوتا ، لیکن وہ اس دائرہ میں سمٹ کر نہیں رہ جاتیں بلکہ نسائی فضا سے آگے بڑھ کر اورحصار ِذات سے باہر نکل کر عام انسانی حیات اور مسائل ِ کائنات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بناتی ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں موضوعات کے علاوہ تمام فنی لوازمات کا بھی بخوبی استعمال کیا ہے۔
فرحت نواز کے چند منتخب اشعار
پیچھے دریا ہے، آگے ہے کھائی
آکے کس موڑ پر میں پچھتائی
غم نہ میرا سمجھ سکیں دونوں
اک سہیلی تھی، ایک ماں جائی
وفا بستی سے اب تک کون لوٹا ہے صلہ لے کر
مجھے مت اس طرح دیکھو نگاہوں میں گلہ لے کر
بچھڑنا ہی مقدر ہے تو پھر امید کیا رکھیں
نبھائیں کس لیے قسمیں،کریں گے کیا وفا لے کر
گریں گے دل پہ آنسو قطرہ قطرہ
وہ پانی آگ میں بویا کرے گا
وہ جھوٹا آج پھر آئے گا فرحتؔ
مجھے وہ آج پھر جھوٹا کرے گا
یوں چمکتے کہ کوئی تاب نہیں لا سکتا
ہم اگر اُن کے مقدر کے ستارے ہوتے
اب تو محفل نہ سجانا ہی ہماری ضد ہے
کیوں کسی اور کو دیکھے وہ ہمارے ہوتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔