یوں دُوریوں کی آگ میں اب نہ جلا مجھے
معلوم بھی تو ہو کوئی اپنی خطا مجھے
باتیں ہزار آ کے لبوں پر ٹھہر گئیں
کہتی میں کیا کہ اس نے بھی کچھ نہ کہا مجھے
وہ گم تھا اپنی ذات کے صحرا میں اس طرح
کچھ دیر کو بھٹک گئی میں بھی، لگا مجھے
وہ چاند تھا گھٹاؤں میں چھپتا چلا گیا
میں چاندنی تھی، ہونا تھا آخر جدا مجھے
موقع ملے ملے، نہ ملے سوچنا ہے کیا
میں تو نمازِ عشق ہوں، کر لو ادا مجھے