عظیم انصاری مغربی بنگال کے اردو ادب میں ادبی لحاظ سے ایک متحرک شخصیت ہیں۔شاعری سے لے کر مضمون نگاری تک سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔کچھ عرصہ سے وہ بنگلہ افسانوں کا اردو ترجمہ کرنے کے کام میں بھی لگے ہوئے تھے۔ڈاکٹر خورشید اقبال کے آن لائن میگزین ’’کائنات‘‘میں انہوں نے باقاعدگی کے ساتھ اپنے تراجم شائع کرائے۔اب ان کے بنگلہ افسانوں کے تراجم کا مجموعہ’’دو گھنٹے کی محبت‘‘چھپ چکا ہے۔اس میں دس افسانہ نگاروں کے چوبیس افسانے شامل ہیں۔کتاب کے شروع میں فنِ ترجمہ نگاری اور عظیم انصاری کے تراجم کے بارے میں چند ادیبوں نے علمی باتیں کی ہیں۔ میں نے دستیاب افسانوں کو توجہ سے پڑھا ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ بنگلہ افسانہ کہاں سے چل کر کہاں تک پہنچا ہے۔
پہلے گیارہ افسانے بَن پھول کے ہیں۔افسانہ’’تبدیلی ‘‘ ایک دولت مند ٹی بی کے مریض ہری موہن کی کہانی ہے۔ٹی بی کی شدت کے دوران اس کی بیوی سرما اس کی بہت زیادہ خدمت کرتی ہے۔اس کے نتیجہ میں وہ خود بھی ٹی بی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہری موہن علاج معالجہ سے ٹھیک ہو جاتا ہے اور اس کی بیوی سرما فوت ہو جاتی ہے۔صحت مند ہونے کے بعد ہری موہن سرما نام کی ایک اور خاتون سے شادی کر لیتا ہے اور دوسری سرما میں بھی پہلی سرما والی خوبیوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔گویا پہلی بیوی ابھی بھی زندہ ہے۔’’تاج محل‘‘ ایک ڈاکٹر کی بیان کردہ ایک غریب فقیر کی اور اس کی مریضہ بیوی کی بظاہر سادہ سی کہانی ہے لیکن کہانی اپنے اندر پراسراریت لئے ہوئے ہے۔کہانی کے آخرمیں ڈاکٹر اور فقیر کی گفتگو دیکھیں اور پھر سوچتے رہ جائیں۔
’’کیا ہورہا ہے میا ں صاحب؟‘‘
بو ڑھے نے پو رے احترام کے سا تھ اٹھتے ہو ئے مجھے سلام کیا ۔’’بیگم کی قبر تیار کر رہا ہو ں حضور!‘‘
’’قبر ؟‘‘
جی حضور!
میں چپ چاپ بیٹھا رہا ۔کچھ دیر کی بور کر دینے والی خامشی کے بعد میں نے پو چھا ’’تم کہاں رہتے ہو ؟
’’آگرے کے آس پاس گھوم گھوم کر بھیک ما نگتا ہو ں غریب پر ور!‘‘
’’تم کو تو میں نے وہاں کبھی دیکھا ہی نہیں ۔کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘
’’فقیر شا ہجہا ں !‘‘
کہانی ’’تجربہ‘‘ میں دو نوجوان مریضوں کے باپوں کے مزاج اور طرزِ عمل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ایک باپ خود بھی ڈاکٹر (ڈاکٹر بابو)ہے اور اپنے ڈاکٹری علم کے باعث ڈیوٹی ڈاکٹر کے لئے پریشانی کا موجب بنا رہتا ہے۔دوسرے نوجوان کا باپ بہت متحمل مزاج ہے اور ڈاکٹر کے کام میں کوئی دخل اندازی نہیں کرتا۔اس کی ہدایات پر پوری طرح عمل کرتا ہے۔ڈاکٹر بابو کا بیٹا فوت ہو جاتا ہے۔ پھر دوسرے نوجوان کی طبیعت بھی بگڑ جاتی ہے اور اس کا باپ اپنے مزاج کے مطابق ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ بیٹے کا تو شاید آخری وقت آگیا ہے آپ اب برہمن ہونے کی حیثیت سے اپنے جوتے کی خاک میرے بیٹے کے سر پر مل دیں۔دوسرے کا بیٹا بھی فوت ہو جاتا ہے اور بعد میں ڈاکٹر کو معلوم ہوتا ہے کہ متحمل مزاج بزرگ باپ ولایت کا ایک ریٹائرڈ سول سرجن تھا۔’’مزاحیہ کہانی‘‘نہ مزاحیہ ہے اور نہ ہی کہانی ۔ ۔۔’’مسٹر مکھر جی‘‘ایک گپ باز کی کہانی ہے۔ایک غریب بندہ غیر ضروری طور پر خود کو بے حد اہم جتلاتا رہا اور ایک دن اس کی اصلیت ظاہر ہو گئی۔ ’’ناری کا من‘‘ایک کنفیوزڈ عورت کی بعض نفسیاتی کیفیات کی کہانی ہے جو گھر کے بلب کا فیوز اڑ جانے سے شروع ہوتی ہے۔’’دوسرا کون؟‘‘ایک معاشرتی کہانی ہے جو دلچسپ پیرائے میں بیان ہوتی ہوئی ایک اچانک موڑ پر ختم ہوتی ہے۔’’ کردارکوے کا‘‘کوے کی زبانی اپنے ارد گرد کے لوگوں کے اندر کی خبریں بیان کی گئی ہیں۔پرندوں کی زبان سے ایسی کہانیاں بیان کرنے کی روایت پہلے سے موجود ہے۔’’بدلتا چہرہ‘‘الہٰ دین کا چراغ‘‘والی مشہور کہانی کی پیروڈی بن گئی ہے لیکن اس میں سلیقے کے ساتھ اصل کہانی کا ذکر بھی کر دیا گیا ہے۔’’آئین‘‘ایسے لوگوں کی کہانی ہے جوجعلی کاغذات تیار کرواتے ہیں ۔ان کے لئے ایسا ایک سرٹیفیکیٹ بنانے والے ڈاکٹر کا سبق آموز واقعہ۔
’’صرف دس روپے‘‘غریب طبقے کی غربت کی انتہا کو اجاگر کرتی ہوئی کہانی ہے۔نکھل بابوکی سفید پوشی اور مالی بے بسی صرف دس روپے کا قرض واپس کرنے کی بھی سکت نہیں رکھتی۔یہ گیارہ کہانیاں بن پھول صاحب کی لکھی ہوئی ہیں۔
کہانی کارسنجیب چٹوپاد ھیائے کے تین افسانے ہیں۔’’پیسہ‘‘ ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جو یکایک امیر بن گیا ہے اور امیروں جیسا دکھائی دینے کے لئے مختلف جتن کرتا ہے۔ اس کا ڈرائیور ایک عام سا اور سادہ سالیکن ذہین نوجوان ہے۔ایک وقت آتا ہے کہ امیر آدمی اسے اپنا داماد بنانے کا فیصلہ کرتا ہے لیکن نوجوان ڈرائیور معذرت کر لیتا ہے کہ ہمارا رشتہ نبھ نہیں سکے گا۔امارت اور غربت کا فرق ہمیشہ آڑے آتا رہے گا۔’’دیسی ریلیٹی ویٹی‘‘آئن سٹائن کی تھیوری کے حوالے سے ایک پرانے استاد،شاگرد کی گفتگو ہے جس میں زمانے کی بدلتی ہوئی چال پر اور بگڑتی ہوئی تہذیب کے بعض گوشے بے نقاب کرتے ہوئے ان پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔’’چینی کہانی‘‘ ایک جاہل اور نکمے نوجوان کی کہانی جو اپنی حماقتوں کے باوجود مسلسل ترقی کرتا چلا گیا۔ایسی کہانیاں چین کی طرح دوسرے ملکوں کی لوک کہانیوں میں بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ مل جاتی ہیں۔
سمریش مجمدارکے افسانہ’’نوشتۂ دیوار‘‘ میںکاتبِ تقدیر(ودھاتا) انسانوں کا مقدر لکھتا ہے۔اس مقدر کا حال جان کر ایک سادھو بابا نے خود کاتبِ تقدیر کا انوکھا مقدر لکھ دیا۔سچ مچ میں ایک دلچسپ اور حیرت میں ڈالنے والی کہانی ہے۔۔۔’’چرکہ‘‘مغربی بنگال کی کیمونسٹ پارٹی کے سخت گیر سسٹم کی ایک افسوس ناک کہانی ہے۔جماعت کے لئے تن من دھن سے قربانیاں دینے والوں کو کس طرح جماعت سے نکال دیا جاتا ہے اور پھر کس طرح ان کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ساتھ ہی نبیندو اور للیتا کی تکلیف دہ داستان۔بیوی جماعت کی خاطر خاوند کے خلاف جاسوسی کرکے رپورٹ کرتی ہے۔مجھے کیمونسٹ پارٹی اور کسی کٹڑ مذہبی جماعت کے نظام کی سفاکی میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیا۔
سمریش باسو، نے افسانہ ’’آداب‘‘میںہندو مسلم فسادات کے دوران ایک مزدورہندو اورملاح مسلمان کی دوستی کی کہانی بیان کی ہے۔ہندو مسلم دوستی کو فروغ دینے والی متعدد کہانیاں پہلے بھی لکھی جاتی رہی ہیں اور ہندوستان کے سماج میں ایسی کہانیاں سنائی جاتی رہنی چاہئیں تاکہ سماج میں سدھار کا احساس موجود رہے۔
سنیل گنگو پادھیائے نے افسانہ’’پارٹی‘‘میں نائٹ پارٹیز کرنے والے گھروں میں رہنے والے بچوں کی کہانی بیان کی ہے جبکہ ’’معاوضہ‘‘سسپینس پیدا کرتی ہوئی ایک دلچسپ نیم ماورائی کہانی ہے۔
مہا شویتا دیوی نے ’’رانگ نمبر‘‘بڑے شہروں کی مزید بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے اثرات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بعض نفسیاتی مسائل کو بیان کیا ہے۔ہندو داستانوں میں پروبیر،اس کے باپ اور جنا کی کہانی مجھے معلوم ہوتی تو شاید میں اس کہانی کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتا۔جدید کہانی میں تفہیم کے لئے مذکور روایات کا تناظر معلوم ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔
سنی دتّہ نے’’زبانی معاہدہ‘‘میںایک ایماندار چپراسی کی رودادبیان کی ہے جو زبانی کی گئی بات کا بھی پاس رکھتا ہے۔نفع نقصان دیکھنے کی بجائے کمزوروں کی مدد کرنا پسند کرتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تو بالکل گدھے کا گدھا ہی رہا۔آج کے دور میں سادہ اور ایماندار لوگوں کو ایسا ہی کہا جاتا ہے۔
اجے بکاش وسواس نے اپنے افسانہ’’سچ بولنے کا انجکشن‘‘میںملزموں ،مجرموں سے سچ اگلوانے والے افسران سے بھی سچ اگلوانے کا کام لے لیا ہے۔یہ دلچسپ کہانی ہے جو تلخ معاشرتی سچائی کو ظاہر کرتی ہے۔
رام ناتھ رائے کی’’دو گھنٹے کی محبت‘‘جدید کمرشیل سروس کے رنگ ڈھنگ لئے دلچسپ کہانی ہے۔زندگی سے لطف کشید کرنے کی بجائے زندگی کے مسائل سے نبرد آ زما انسان کی کہانی ہے جوبالآخر فرض کو عیش پر ترجیح دیتا ہے۔
سید مصطفی سراج نے’’اک شبِ سیاہ‘‘میںایک نئے نئے بھوت سے ملاقات کی دلچسپ کہانی بیان کی ہے۔نئے نئے بھوت کا بھوت کے نام سے خود بھی ڈرنا دلچسپ لگا۔مجموعی طور پر اچھی کہانی ہے۔
ان افسانوں کا تنقیدی جائزہ لینا یا فن ترجمہ نگاری کے حوالے سے انہیں دیکھنا میرے پیش ِ نظرنہیں تھا۔میںنے صرف پیش کی گئی کہانیوں کو پڑھ کر ان کہانیوں کی بنیاد پر بنگلہ افسانے کے موڈ اور مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔میں کہہ سکتا ہوں کہ بنگلہ افسانہ اپنے ثقافتی رنگوں کے ساتھ انڈیا کے مجموعی سماج سے بھی ہم آہنگ ہے اور عالمی فکشن میں بھی اپنی پہچان رکھتا ہے۔ یہ سب پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی ہے۔عظیم انصاری کو یہ کتاب مکمل کرنے اور شائع کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔