جو مجھ سے دُور بہت خال خال رہتا تھا
کبھی اُسے مِرا پل پل خیال رہتا تھا
اب اُس کی دِید کو آنکھیں ترستی رہتی ہیں
وہ جِس کا دائمی حاصل وِصال رہتا تھا
نہ کُھل سکا کبھی مجھ پر وفا کے رستے میں
مِرے ہی بخت میں کیوں کر زوال رہتا تھا
میں اُس نظر کے سبب معتبر تھا دُنیا میں
میں اُس نظر کے سبب بے مِثال رہتا تھا
رواں اُسی سے تھی قائلؔ مِری طبیعت بھی
مِزاج اُس کا بھی مجھ سے بحال رہتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔