ہنسنے کے سارے طَور سِکھا کر چلا گیا
روتا ہْوا تھا شخص۔۔ ہنسا کر چلا گیا
سنگلاخ راستوں کا مسافر تھا ، بالاخیر
سنگِ ہْنر میں پھول کھِلا کر چلا گیا
سینے سبھی تھے تنگ، تعفّن بھرے ہوئے
بد باطنی میں مْشک مِلا کر چلا گیا
اب ہم پہ منحصر ہے یا خوشبو پہ منحصر
کاغذ پہ وہ تو پھول بنا کر چلا گیا
جاتے ہوئے تھا ہاتھ میں شفّاف آئینہ
دنیا کو اْس کی شکل دکھا کر چلا گیا
پچھتا رہی ہے رزم گہِ زیست آج بھی
لشکر کو ایسی چال چلا کر چلا گیا
ٹھہرا رہا ہے آگ میں طاہر، یہی نہیں
آیا تھا ایک شخص اور آ کر چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔