اس میں کوئی شک نہیں کہ غزل اُردو کی مقبول صنفِ شعر ہے۔ اِس خوب صورت صنفِ شعر کے بارے میں ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں:
’’ غزل کے لغوی معنی عورتوں یا عورتوں کے متعلق گفتگو کرنا ہیں۔ ہِرن کے منہ سے بوقتِ خوف جو دردناک چیخ نکلتی ہے، اسے بھی غزل کہتے ہیں۔ ‘‘ (رفیع الدین ہاشمی،ڈاکٹر، اصنافِ ادب، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ ء، ص: ۳۱۔۳۲)
غزل ایک ایسی صنف ہے جو موضوع کے اعتبار سے اپنے اندر ایک جہاں آباد رکھتی ہے۔۔۔۔۔موضوع کے اعتبار سے غزل میں بہت تنوع، ہمہ گیریت اور رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی غزل کے موضوعات کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’ عشق و عاشقی، غزل کا سب سے بڑا موضوع ہے اور عموماً غزل میں حُسن و عشق کی مختلف کیفیات (مثلاً درد و غم، سوز و گداز، ہجر ووصال، محبوب کا ظلم و ستم، اِس کی بے وفائی اور نازوادا وغیرہ) کا بیان ہوتا ہے تا ہم غزل میں اتنی وسعت، رنگا رنگی اور تنوع ہے جتنی خود زندگی یا کائنات متنوّع اور وسیع ہے۔ اِس ہمہ گیری کے سبب غزل میں مذہبی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی، اخلاقی، فلسفیانہ، حکیمانہ اور عاشقانہ موضوعات و مسائل پر اظہار خیال کیا جاتا ہے۔‘‘ (رفیع الدین ہاشمی،ڈاکٹر، اصنافِ ادب، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ ء، ص: ۳۲)
اُردو غزل فارسی غزل کی مرہونِ منت ہے۔ غزل کے ارتقاء کے بارے میں ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں:
’’ ولی دکنی اُردو کا پہلا قابلِ ذکر غزل گو ہے۔ اُسے اُردو غزل کا ’’باوا آدم‘‘ کہا جاتا ہے۔ غزل کے ارتقاء میں میرؔ،سوداؔ، دردؔ، انشاءؔ، جرأتؔ،مصحفیؔ،آتشؔ، غالبؔ، ذوقؔ، مومنؔ،ظفرؔ، داغؔ، حالیؔ وغیرہ کا قابلِ قدر حصّہ ہے۔ ‘‘ (رفیع الدین ہاشمی،ڈاکٹر، اصنافِ ادب، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ ء، ص: ۳۴)
گوپی چند نا رنگ اُردو غزل کی تاریخ اور اِس کی بنیادوں میں موجود عناصرکی نشاندہی اِن الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ غزل کی اشاریت اور رمزیت ، اِس کا کھو جانے اور کچھ پا جانے کا انداز اِس کی لطیف اور ایمائی فضا اور ماورائی احساس ہندوستانی ذہنی افتاد سے گہری مناسبت رکھتا ہے۔ اِس کی تاثری کیفیت ، اِس کا تصورِ عشق اورا حساس جمال ہندوستانی مزاج سے متاثر ہے اور اِس کے جمالیاتی اور روحانی تقاضوں کو پورا کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اِس کے علاوہ فکری سطح پر ہندوستانی فنون لطیفہ اور شعرو ادب کی طرح اردو غزل بھی زندگی کے ایک منبع ، ایک جوہر اور ایک بنیادی وحدت کا اعتراف کرتی ہے۔ وہ ظاہر و باطن نیز مذہبوں اور ملتوں کی تفریق کے حق میںنہیں وہ ہر طرح کی تنگ نظری اور تعصب کے خلاف ہے اور اِس روایت کی علمبردار ہے جس میں تصوف اور بھگتی کا جوہر مل کر ایک ہو گیا ہے اور انسان دوستی، بھائی چارے ،یگانگت اور امن و آشتی کے عظیم مسلک کی تلقین کرتا ہے۔‘‘ (گوپی چند نارنگ،اُردو غزل اور ہندستانی ذہن و تہذیب،قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی، جولائی ۲۰۰۲ء، ص:۴۰۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔