سوال: نصرت بخاری۔۔۔۔جواب : حیدر قریشی
(ذیل میں نصرت بخاری کے لئے ہوئے طویل انٹرویو کے چند سوال اور ان کے جواب شائع کئے جا رہے ہیں)
سوال :برصغیر سے باہربالخصوص جرمنی میں اردو ادب کی تخلیق و اشاعت کی صورتِ حال کیا ہے؟
جواب: جرمنی میںاردو ادب کی تخلیق ہر لکھنے والے کی اپنی اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق ہے۔ہر سطح کے لکھنے والے موجود ہیں اور اپنی بساط کے مطابق لکھ رہے ہیں۔شاعری کی طرف رجحان زیادہ ہے۔لیکن نثر میں لکھنے والے بھی ہیں۔عمومی طور پر یہ لکھنے والے مجلسی زندگی کو اپنی کائنات سمجھتے ہیں۔اس رویے کو سوشل میڈیا نے مزید تقویت دی ہے۔چنانچہ لکھنے والے ادبی تقریبات میں،ٹی وی ،ریڈیو اور سو شل میڈیا پر کلام پیش کرکے خوش ہو جاتے ہیں۔ادبی رسائل کی طرف بہت کم توجہ ہے۔بلکہ اب تو ان لوگوں کو ادبی رسائل کی اہمیت اور قدروقیمت کا احساس تک نہیں ہے۔شاید اس میں مدیرانِ ادبی رسائل کے کردار اور طرزِ عمل کا بھی کچھ قصور ہو۔براہِ راست کتابیں چھپوانے کے لیے پاکستان اور انڈیا میں اشاعتی ماہرین موجود ہیں اس لیے یہاں کے ادیبوں کی کتابیں پاکستان اور انڈیا سے ہی چھپتی ہیں۔اس کام میں جینوئن لکھنے والوں کی کتابوں کی اشاعت کی سہولت کے ساتھ، جعلی لکھنے والوں کو تو لکھا لکھایا مجموعہ بھی مل جاتا ہے اور کتاب کی اشاعت اور تقریب رونمائی کی ساری سہولیات بھی میسر ہیں۔ویسے ایک وضاحت کر دوںپہلے میں جرمنی اور مغربی دنیا کے جعلی شاعروں اور شاعرات کے بارے میں لکھا کرتا تھا،ایسے لکھنے والوں کی بھرمار اب بھی ہے لیکن سوشل میڈیا کو قریب سے جانچا توپتہ چلا کہ انڈوپاک میں بھی اب ’’جعلی جوہرِ قابل ‘‘کی کمی نہیں رہی۔سو اَب یہ معاملہ پوری اردو دنیا میں ہی ایک جیسا ہو کر رہ گیا ہے۔
سوال : اردو ادب کی تاریخ لکھنے والے برصغیر سے باہر رہنے والے ادیبوں کو نظر انداز تو نہیں کر رہے؟
جواب:میرا خیال ہے کہ لکھنے والے کو اپنے لکھے ہوئے پر اعتماد ہے تو اسے کسی مورخ کی جانب دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔کوئی ادب کی تاریخ ایمان داری سے لکھ رہا ہے تو اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔کوئی ڈنڈی مار رہا ہے یا مکمل بے ایمانی سے کام لے رہا ہے تووہ خود قابلِ رحم ہے۔ایسے مورخوں کا اپنا جغرافیہ خراب ہوجاتا ہے۔ایسے مورخ جو اپنی تاریخ کے ایک ایڈیشن میں دوست ادیبوں کے اسماء لکھیں اور اگلے ایڈیشن تک بعض دوستوں سے ناراضی ہو جانے پر ان دوستوں کے نام خارج کردیں اور نئے دوستوں کے نام شامل کر لیں،ایسے ادبی مورخوں کی تاریخ میں نام آنا بھی شرمندگی کا باعث ہے چاہے وہ مفادات کی سطح پر کتنے ہی کامیاب کیوں نہ ہوں۔ سو مجھے تو اپنے لکھے پر اعتماد ہے۔میں جتنا ہوں اس سے زیادہ اللہ نے عزت بخش دی ہے سو کوئی ادبی مورخ ایمان داری کے ساتھ جائز حد تک ذکر کرتا ہے تو یہ اس کا فرض تھا،کوئی بے ایمانی کی حد تک جا کر نظر انداز کرتا ہے تو اس کی پرواہ بھی نہیں۔میرے اس مزاج کے حامل اردو کے اور بھی ادیب مغربی دنیا میں موجود ہیں۔جہاں تک مغربی دنیا کے اردو ادیبوں کا تعلق ہے،انہیں عمومی طور پر ادبی تاریخ کے ایسے کام سے کوئی دلچسپی ہی نہیں رہی۔ان کے نزدیک سوشل میڈیا ہی اصل تاریخ ہے۔
سوال: پردیس میں رہنے والے کن ادبی سہولیات سے محروم ہوتے ہیں؟
جواب: بظاہر تو مجھے ایسا نہیں لگتا کہ بیرون ملک رہنے والے اردو ادیب کسی سہولت سے محروم ہیں۔اپنی کتابیں اہلِ وطن سے زیادہ اہتمام کے ساتھ چھپوا سکتے ہیں۔جو ادبی رسائل کی قدروقیمت کا کچھ ادراک رکھتے ہیں،ان میں سے بعض اپنے رسالے بھی جاری کر لیتے ہیں۔بھاگ دوڑ کر سکنے والے ادبی انجمنیں بنا کر ادبی تقریبات کا ا نعقاد بھی کر لیتے ہیں۔سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے جو مثبت فوائد ہیں ان کی وجہ سے بیرون ملک رہنے والے ادیبوں کے لیے کوئی محرومی نہیں رہ جاتی۔زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وطن کی یاد انہیں اداس کیے رکھتی ہے۔پہلی بات تو یہ کہ وطن سے باہر آنا ان کی اپنی ترجیح تھی۔دوسری بات یہ کہ وطن کی یاد اگر تخلیقی سطح پراپنا اظہار کرنے لگے تو یہ محرومی کی بجائے اضافی خوبی بن جاتی ہے جو یہاں کے ادیبوں کے لیے موجود ہے۔تاہم ایسے اچھے اظہار کی توفیق کسے ملتی ہے اور کسے نہیں ملتی یہ پھر اپنی ادبی قسمت کی بات ہے۔یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بیرون ملک رہنے والے ادیبوں کو وطن جانے پر خصوصی پذیرائی بھی ملتی ہے جو بعض اوقات وطن میں رہنے والے ان سے کہیں اچھے ادیبوں کووہاں نہیں ملی ہوتی۔
سوال :ادب کے حوالے سے پردیس کوئی ایساادیب،شاعر یا نقاد پیدا نہیں کر سکا جو رجحان ساز ہو۔اس کی وجہ؟
جواب:رجحان ساز ادیب تو ایک عرصہ سے وطنِ عزیز یا انڈیا میں بھی کوئی نہیں پیدا ہوا۔دونوں طرف جو چند بڑے لکھنے والے نام ملتے ہیں وہ سب گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دَہائی میں ابھرنے والے ادبی لوگ ہیں۔ان میں سے بعض کا قابلِ ذکر ادبی کام تو ہے لیکن رجحان ساز ان میں بھی کم ہیں۔بیرون برصغیر تو ویسے بھی بڑی تعداد شوقیہ شاعروں کی ہے جو شاعری کو شو بز کی سطح پر پیش کر کے اسے اپنا کمال سمجھتے ہیں۔سنجیدہ کام کرنے والے شاعر،ادیب اور نقاد موجود تو ہیں لیکن شاید وہ ادب کو پورا وقت نہیں دے پا رہے۔بیرون برصغیر لکھنے والے سنجیدہ ادیبوں میں سے بعض نے ایسا علمی و ادبی کام بہر حال کیا ہے جو ہندو پاک میں اس معیار کا کسی اور کو کرنے کی توفیق نہیں مل سکی۔سو ایسا منفرد نوعیت کا کام کرنے والے ادیب یہاں موجود ہیں تو یہ بھی ایک خوبی ہے۔اس کے باوجود میں ادب کی پاکٹس کی جغرافیائی نوعیت کو تو مانتا ہوں لیکن میں ادب کی مین سٹریم کی اہمیت کا قائل ہوں۔ اورادب کا جو بھی مرکزی دھارا طے کر لیا جائے،اس میں بیرون برصغیر کے کئی قابلِ ذکر ادیب بھی اہم جگہ پائیں گے۔
سوال: پردیس میں تحقیق اور تنقید کی بجائے تخلیقی کام زیادہ ہو رہا ہے،اس کی وجہ؟
جواب: تخلیقی کام اور اس میں بھی شاعری کی بھرمار ہے لیکن یہ صرف بیرون برصغیر میں نہیں ہو رہا،برصغیر ہندوپاک میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔سو انڈیا اور پاکستان میں تحقیق و تنقید کے مقابلہ میں شاعری اور دوسری نثری اصناف میں کیوںکام زیادہ ہو رہا ہے؟اس کی جو وجوہات نکلیں وہی بیرون بر صغیر والوں کے لیے بھی گمان کر لیں۔انڈو پاک میں تحقیق کے کام میں دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مختلف یونیورسٹیزمیں اس کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔جبکہ بیرون برصغیر اردو میں جامعاتی سطح کا ایسا کوئی سلسلہ ہے ہی نہیں۔پھر بھی میرا خیال ہے کہ بیرون بر صغیر میں بعض ایسے تحقیقی و تنقیدی کام ہوئے ہیں جو نہایت اہم ہیں۔اختلاف رائے کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن ایسے کام کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔مثلاََ میر تقی میر کا با اندازِ دگر مطالعہ،قرۃ العین حیدر کے ناول آگ کا دریا کا ایسا مطالعہ جس کی بر صغیر میں مثال نہ ملے،اردو ماہیے کی تحقیق و تنقید کے حوالے سے بنیادی کام،مطالعۂ فیض کے ضمن میں قابلِ ذکر پیش رفت،اردو مرثیہ کے حوالے سے کچھ قدرے الگ کام،۔۔۔تو یہ تحقیق و تنقید کے ایسے سلسلے ہیں جن کی اردو ادب کی مین سٹریم میں بھی اہمیت ہے۔اس لیے تخلیقی کام زیادہ ہونے کے باوجود تحقیق و تنقید کاقابلِ ذکر کام بھی تھوڑا سہی لیکن ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔
سوال : برصغیر میں رہنے والے ادبی مشاہیر دیارِ غیر میں رہنے والے ادیبوں کو کسی پروگرام کی صدارت سے نواز کر یا ان کے ساتھ ایک آدھ شام منا کر فوائد حاصل کرتے ہیں؟ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: یہ سب کچھ ’’دیارِ غیر‘‘میں رہنے والے ادیبوں کے ساتھ ہی نہیں ہوتا اندرون برصغیر بھی اس قسم کا لین دین اور نوازشات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ہاںاس سلسلے میں اتنا پھیلاؤ آگیا ہے کہ یہ بیرون برصغیر تک بھی اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔جینوئن ادیبوں کی حد تک یہ سلسلہ رہتا تو اسے ادبی سیاست اور جوڑ توڑ کی ایک قباحت سمجھ کر گوارا کر لیا جاتا۔لیکن اس معاملہ میں جعلی شاعروں؍شاعرات اور دوسرے نام نہاد رائٹرز کو غیر معمولی اہمیت دے کراردو ادب کی تذلیل کی جا رہی ہے۔مغربی دنیا میں ادبی جعل سازی کی تاریخ کو دیکھیں تو جعلی شاعروں،ادیبوں کو بنانے اور انہیں پرموٹ کرنے میں اول اول ہمارے ایک دو ترقی پسند شعراء نے’’ ثواب‘‘ کمایا۔پھر اس میںاُس زمانے کے’’اسلام پسند‘‘ صحافیانہ سطح کے ادیبوں نے اپنی ’’دین و دنیا سنواری‘‘۔ان کے بعد اچھے بھلے اور معقول شعراء نے معاوضہ لے کر پوری کتابیں لکھ کر دینے کا’’دھندہ‘‘ شروع کیا۔اس سارے عمل میں مالی فوائد کے ساتھ تقریبات کا پیکیج بھی فراہم کیا جاتا رہا۔خواتین کے معاملہ میں مالی کے ساتھ ’’جمالی‘‘ پیکیج بھی دستیاب رہا۔جب یہ کاروبار چل نکلا تو برصغیر کے بعض نامور نقادوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کر دئیے۔دیکھا دیکھی ادبی اداروں کے ’’بڑوں‘‘ اور بڑی ادبی تقریبات کے منتظمین نے بھی’’ کھلے بازوؤں‘‘ کے ساتھ ایسے؍ایسی مندوبین کا استقبال کرنا شروع کردیا۔حالانکہ سب بخوبی جانتے ہیں کہ یہ جینوئن لکھنے والے؍لکھنے والیاں نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن یہ سب کچھ کسی نہ کسی سطح پر ہندوستان اور پاکستان میں وہیں کے جعلی شاعروں اور شاعرات کے معاملہ میں بھی ہو رہا ہے۔وہاں بھی ایسے لوگوں کے لیے مقامی طور پر ایسے پیکیج دستیاب ہیں۔شاید یہ سب کچھ ہمارے معاشرے میں دور تک پھیلی ہوئی کرپشن کی مختلف صورتوں کا ہی عکس ہے جو ادب میں بھی جھلک رہا ہے۔ (بحوالہ’’ شعوروادراک‘‘ خان پور۔حیدر قریشی گولڈن جوبلی نمبر۔اکتوبر تا دسمبر 2020 ء )