کوئی قائم روایت نہیں ہو سکی
بزدلوں سے بغاوت نہیں ہو سکی
چلتے چلتے مرے پاؤں شل ہو گئے
کم ذرا بھی مسافت نہیں ہو سکی
غار کے منہ سے پتھر نہیں ہٹ سکا
معجزہ یا کرامت نہیں ہو سکی
پھر ترے بعد دل ایسا منکر ہوا
پھر کسی سے محبت نہیں ہو سکی
دو قبائل کا کتنا لہو بہہ چکا
ختم پھر بھی عداوت نہیں ہو سکی
سب دلائل دھرے کے دھرے رہ گئے
از سر ِ نو سماعت نہیں ہو سکی
خلقت ِ شہر تیور بدلتی رہی
ہم سے نجمیؔ وضاحت نہیں ہو سکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔