ڈاکٹر وحید احمد کو پڑھتے اور سنتے ہوئے زمانے گزر گئے۔آپ کے ساتھ زیادہ تر ملاقاتیں ایبٹ آباد کی ادبی محفلوں میں ہوئیں، جہاں آپ کی نظمیں سنتے، سر دھنتے اور خوش گپیوں میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ رہتا۔۔ایبٹ آباد بلکہ سارا ہزارہ وحید احمد سے محبت کا دعوے دار ہے۔ایسی خوش بختی ہر کسی کو ارزانی نہیں ہوتی۔بات دراصل یہ ہے کہ وحید احمد کی تخلیقات اور شخصیت بھی لاجواب ہے۔اعلی تخلیق کار اگر اعلی شخصیت کا بھی مالک ہو تو جمالیات کی بحث مکمل ہونے لگتی ہے۔کیا یہ محض حْسنِ اتفاق ہے کہ آزاد نظم کے بنیاد گزار ہوں یا معاصر(چند ایک) آزاد نظم گو شعرا،ہم اْن کی تخلیقات کے ساتھ اْن کی شخصیت پر بھی بات کرنا پسند کرتے ہیں۔میراجی،ن م راشد،مجید امجد اور پھر ہمارے زینو کو دیکھ لیں۔اس گتھی کو ضرور سلجھانا چاہیئے کہ آخر آزاد نظم کے شعرا کی شخصیات کا کینوس اتنا متنوع اور رنگارنگ کیوں ہوتا ہے یا کیسے ہوتا ہے کہ اگر بات ان کی نظم پر شروع ہو تو ختم شخصیت پر ہوتی ہے۔میں بذات خود تخلیقی عمل میں شخصیت کی ہنرکاری کا قائل ہوں۔اگرچہ جدید اور مابعد جدید تنقیدی تصورات اس کی نفی کرتے ہیں۔نفی کرتے رہیں،ہم تو ویسے بھی مثبت قدروں کے ماننے والے ہیں۔وحید احمد نے اردو فکشن میں بھی قابل قدر اضافے کئے ہیں۔ایسی شخصیت کو صدارتی ایوارڈ کا ملنا جہاں اس ایوارڈ کی قدروقیمت بڑھاتا ہے وہاں ہم سب کے زینو کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف بھی ہے۔جناب وحید احمد کو ایوارڈ کی بہت بہت مبارک باد۔یہ ایوارڈ ہم سب دوستوں کا مشترکہ اعزاز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔