’’خوشبو،گلاب، کانٹے‘‘کا ایک مختصر فنی جائزہ
اس مختصر جائزہ کے آغاز ہی میں، یہ وضاحتیں ضروری ٹھہرتی ہیں: فی الوقت، صاحبہ مجموعہ اور مضمون نگار دونوں ہی بالترتیب برمنگھم اور نیویارک میں رہتے ہیں۔ نیز، یہ مضمون نگار بھی لندن نامی شہر میں اکیس ماہ سے بہ حیثیت اِمی گرنٹ گذار چکا ہے۔ لہٰذا ، وہ لندن کے شعری مزاج سے بالخصوص اور دیگر انگلستانی شہروں سے بالعموم اب بھی زرا زرا سا آشنا ہے۔ لہٰذا، رضیہ کو ایک کلی کہیے اور ایمنؔ کو ایک شگوفہ کہیے کہ وہ دونوں ہی بھری بہار تج کر، ایک رواں دواں، سدبہار ، خزاں زاد جھونکے کے دوش پر ہچکولے کھاتے نظر آتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ماضی ہے۔ ان کا حال بے چہرہ ہے اور ان کا مستقبل صرف اور صرف دعائوں، امیدوں اور آشائوں سے ہم کنار ہے۔ یہ دعائیں، امیدیں اور آشائیں ہمہ وقت تشکیک اور تذبذب سے محموررہتی ہیں کہ ان کی جھولیوں میں دیس، پردیس کے لمحات ہیں۔ وہ لمحات خود کو داستانوں، واقعات اور یادوں میں ڈھال کر، ذہن اور دل کو تزئیں کے ساتھ ساتھ تسکین جاں کی ساعتیں فراہم کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان ساعتوں میں نشیب و فراز کے پہلو ایک دوسرے سے مبہم نظر آتے ہیں۔ نشیب و فراز پر مبنی یہی ساعتیں، اِشارے اور کنایے بَن بَن کر ، رضیہ کے اسلوب کا خاکہ بُنتی ہیں۔ یہی خاکہ رضیہ کے اسلوب کا اساسی عنصر ٹھہرتا ہے۔ اس اساسی عنصر میں خودکلامی کے ساتھ ساتھ، تجربات بھی ہیں اور مشاہدات بھی ہیں، جن میں یاس کو آس پر برتری حاصل ہے کہ پردیس میں، بیشتر مواقع پر، سود بھی زیاں کی شکل اختیار کرسکتا ہے، کرتا ہے۔
روشنی کا جو استعارہ تھا
وہی جگنو جلا گیا مجھ کو
تلاشِ خواب میں راتوں سے دوستی کرلی
اندھیرے رات کے پھر بھی ڈراتے رہتے ہیں
مندرجہ بالا پہلے شعر میں خودکلامی کا انداز ہے، جو سبب اور نتیجہ سے مربوط ہے۔ دوسرے شعر میں پنہاں خودکلامی کے ضمن میں کوئی صیغہ واحد متکلم ہے اور نہ ہی کوئی صیغہ جمع متکلم ہے، ہاں، لفظ ’’کرلی‘‘ سے تکلم کا اظہار ہوتا ہے۔ اب اس شعر میں لفظ ’’مَیں‘‘ کا اِاعلان سنیے:
وہ گم تھا اپنی ذات کے صحرا میں اِس طرح
کچھ دیر کو بھٹک گئی مَیں بھی، لگا مجھے
ذرا ملاحظہ کیجیے کہ بھٹکنے کے عمل میں صرف شاعرہ ہی شامل نہیں کہ لفظ ’’بھی‘‘ سے انفرادیت، اجتماعیت میں بدل جاتی ہے۔ خودکلامی کے ضمن میں یہ مثالیں خوب ہیں: ’’(میرے ) لبوں پر ہزاروں باتیں آکر ٹھہر گئیں / میں اس سے کیا کہتی کہ اس نے بھی مجھ سے کچھ نہ کہا/ یہ سوچنا عبث ہے کہ (پھر) کوئی موقع ملے یا نہ ملے۔ میں تو نمارِعشق ہوں (اس لیے) مجھے ادا کرلو/سمندروں سے عداوت نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ، میں اپنے دل کی کشتی ڈبو نہیں سکتی/ میری ساری صبحیں نور سے خالی ہیں۔ لہٰذا، میری ہر رات احساس پہ چلتی (ایک) آری ہے /خزاں نے پیار کے سب نشان یوں مٹا ڈالے ہیں کہ اب تیری یاد کا سایہ بھی میرے ساتھ نہیں رہا /محبت (اگر) زخم ہے تو کوئی مرہم ڈھونڈ کر لائوں (اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو) درد کے رستوں کو پھولوں سے سجا ڈالوں/ جینا مجھ کو راس نہ آیا (لہٰذا میں) موت سے رشتہ جوڑ چکی ہوں۔‘‘
مجھے اُڑنے کی خواہش تھی
مگر زنجیر ہونا تھا
اس شعر کی تقطیع یوں ہوگی: مَ فا عِ لُن ، مَ فاعِ لُن ۔۔۔۔ بحرِ ہزج مربع سالم۔ اب یہ چار رکنی مثالیں بھی حاضر ہیں ۔۔۔ کہا زمین سخت ہے ۔۔۔کہا یہ تیرا بخت ہے ۔۔۔ مَ فا عِ لُن ، مَ فاعِ لُن ۔۔۔۔ بحرِ ہزج مربع مقبوض /کوئی دل کی شمع بجھا گیا ۔۔۔مجھے آنکھ، آنکھ رُلاا گیا۔۔۔ مُ تَ فا عِ لُن ، مُ تَ فاعِ لُن ۔۔۔۔ بحرِکامل مربع سالم۔‘‘
رضیہ کے اسلوب میں چھ رکنی بحریں وافر ہیں، مثلاً :
مَیں دیواروں کو گھر کہتی رہی ہوں
مَیں پتھر کو گہر کہتی رہی ہوں
مَفاعی لُن ، مَ فاعِی لُن ، فَ عُولُن۔۔۔ بحرِ ہزج مُسدّس سالم مخدوف۔ چھ رکنی غزلوں میں، بحرِ خفیف مُسدّس مخبون مشعث محذوب ۔۔۔۔’’فاعِ لاتن ، مَ فاعِ لُن ، فَع لُن‘‘ کو نمایندہ کہا جا سکتا ہے۔ اس بحر میں چند غزلیں مقصور میں بھی ہیں، یعنی اُن کا آخری رکن ’’فَ عِ لان‘‘ ہے۔ چُنیدہ غزلوں کے یہ مصرعے ملاحظہ کیجئے:
’’کوئی چلنا سِکھا گیا مجھ کو / خواب آنکھوں میں کچھ پرانے دو / اب تو جذبوں کی حکمرانی ہے / تیری نظروں میں پیار کے ساغر / روشنی ، یاد، درد کے راہی / رات آنکھوں میں کاٹ دیتی ہوں / چند لمحوں میں پیار کی خاطر /جو بھی کرتے ہیں اس جہاں میں ہم / میرے آنسو مِری زباں بنتے / دِل تِری بات سے خفا ہی نہیں / دُور شہنائی بج رہی تھی کہیں۔‘‘
پتھروں کے نگر میں آنکلی
کوئی اِنساں یہاں پہ رہتا نہیں
اپنے حصے کے دُکھ اُٹھانے ہیں
کوئی پیڑیں پرائی سہتا نہیں
ان اشعار کے پہلے مصرے ’’فَع لُن‘‘ پر ختم ہورہے ہیں اور دوسرے مصرعے ’’فَ عِ لُن‘‘ پر۔ فنی طور پر اس تبدیلی کی اجازت ہے۔دوسرے شعر کے دوسرے مصرع میں، پنجابی زبان کا ایک لفظ ’’پیڑیں‘‘ باندھا گیا ہے۔ یہ جمع کا صیغہ ہے۔ اس کا واحد ہے ’’پیڑ‘‘ بہ معنی درد۔ رضیہ کی غزلوں میں، یہ الفاظ انسلاکی حیثیت رکھتے ہیں: ’’دید، دیوار، سایہ، سوغات، پھول۔‘‘ اب اس شعر میں لفظ ’’منڈیر‘‘ کا استعمال دیکھئے:
غم گھر کی منڈیروں پر، آرام سے بیٹھا ہے
جانے کے ابھی اُس کے آثار نہیں ملتے
یہ شعر بحرہزج مثمن اخرب سالم ۔۔۔ مَف عُول، مَ فاعِی لُن، مَ فاعِی لُن ۔۔۔ میں ہے۔ اسی بحر میں، تمنّا سے لبریز یہ شعر خوب ہے:
گھر ڈھونڈنے نکلے تھے، ویرانے میں آپہنچے
اے کاش کہ رستوں میں اِک نام لکھا ہوتا
ہزج ہی کے یہ مصرعے بھی ملاحظہ کیجئے: ’’ٹوٹا ہوا خوابوں کا نگر دیکھ رہی ہوں / ہنستے ہوئے لوگوں کو رلایا نہیں کرتے / اب اس نے بلایا ہے تو جانا ہی پڑے گا / ہر بام سے خورشید نکل آئے گا اک دن / ہم ذات کے صحرا سے نکل پائیں تو کیسے / مَف عُول، مَ فاعی ل، مَ فاعِی ل،فَ عُولُن ۔۔۔مثمن مکفوف محذوف / ار میں آنکھ ہوں تو دیکھنے سے کون روکے گا / ہمارے عہدکے انسان تو خوابوں میں رہتے ہیں /کہو، غم کے سفینے کس طرف بہتے ہوئے دیکھے / ابھی تو آدمی کو لفظ کا عرفان ہونا ہے۔‘‘
مجھے ہر روز کی بربادیوں سے خوف آتا ہے
نہ تم برباد کرتے ہو، نہ تم آباد کرتے ہو
’’ مَ فاعِی لُن، مَ فاعِی لُن، مَ فاعِی لُن، مَ فاعِی لُن‘‘ ۔۔۔ بحرِ ہزج مثمن سالم۔
رضیہ کی غزلوں کا تنوع خوب ہے، مثلاً : مَیں لاشعور کو مانوں تو کس طرح مانوں / ممَیں جب بھی نکلوں تِری یاد کے گلستاں میں /کہاں گرفت میں اب ماہ و سال کے موسم ۔۔۔ مَ فاعِ لُن، فَ عِ لاتُن ، مَ فاعِ لُن ، فَع لُن۔۔۔ بحرِ محبتث مثمن مخبون ابتر / تیری یادوں کا جو اِک دیپ جَلا ہوتا ہے ۔۔۔ چاہتیں چاک گریبان پھرا کرتی ہیں ۔۔۔ اب قدم رکھوں تو دھرتی کو سلگتا دیکھوں ۔۔۔ غم کی آنکھوںمیں کبھی ڈال کے دیکھو آنکھیں ۔۔۔کب تلک تیز ہوائوں کا مَیں رستہ روکوں ۔۔۔فاعِ لاتُن، فَ عِ لاتُن ، فَ عِ لاتُن ، فَع لُن ۔۔۔بحرِ رمل مثمن سالم مخبون محذوف مسکن۔
اس مجموعہ میں بہت سی غزلیں آٹھ رکنی بحزِ متتارب میں ہیں ’’فَع لُن، فعل، فَ عُولُن، فاع، فَع‘‘ کے ساتھ۔ اسی بحر میں چند غزلیں دس رُکنی بھی ہیں اور بارہ رُکنی بھی۔ بحرِ متقارب (بنیادی رکن : فَ عُولُن) اور بحرِ متدارک (بنیادی رُکن: فاعِ لُن) میں یہ رُکن مشترک ہیں: ’’ فع لُن، فعل۔‘‘ لہٰذا بعض اوقات ان کی تقطیع نسبتاً زیادہ وقت مانگتی ہے۔ اس مجموعہ میں شامل بحرمتدارک مثمن سالم کی یہ غزل واضح ہے ۔۔۔۔۔۔’’موم کے سایباں کو کڑی دھوپ میں ۔۔۔ مَیں پگھلتے ہوئے دیکھتی رَہ گئی ۔۔۔ فاعِ لُن، فاعِ لُن، فاعِ لُن ، فاعِ لُن۔‘‘ موم کے سایباں کو کڑی دھوپ میں دیکھتے رہ جانا خودکلامی ہی کا ایک انداز ہے۔ اس انداز میں ایک مشاہدہ ہے، ایک نیا مشاہدہ کہ الفاظ ’’موم کے سایباں‘‘ نے بیان کو مجردبنا دیا ہے۔ رضیہ کی بہت سی غزلیں طویل بحروں میں بھی ہیں جن میں خودکلامی گہے الگ اور گہے مشاہدات /تجربات سے جڑی نظر آتی ہے، مثلاً :
اُلجھی اُلجھی دنیا اپنی ذات کے اندر کیسی ہے
شاید چاند میں چرخہ کاتنے والی بڑھیا جیسی ہے
جوان چہرے لُٹے لُٹے سے، نظر کی شمعیں بجھی بجھی سی
نشے سے اُجڑی جوانیوں کو مَیں کیسے عہدِشباب لکھوں
وادی وادی، پربت پربت پھیل چکے افسانے ہیں
جِن کو چاہا جان سے بڑھ کر، وہ کتنے انجانے ہیں
رضیہ کی غزلیں چھوٹی چھوٹی بحروں میں ہوں یا لمبے لمبے مصرعوں میں ، وہ ہرحال ہمہ تَن ایک داستان گو نظر آتی ہے۔ اس کی داستانیں گہے خود سے، گہے معاشرہ سے اور گہے ماحول سے گفتگو کرتی نظر آتی ہیں۔ اس گفتگومیں کہیں نشان دہی ہے تو کہیں وضاحت اور کہیں صراحت، جو اشاروں، کنایوں، حوالوں اور تذکروں سے سرخ رو ہیں، گہے سوالات کے جلو میں اور گہے جوابات کے جلو میں۔
کیا بات سنائیں لوگوں کو، ہم سب کی کہانی ایک سی ہے
اب کس کس بات کو یاد کریں، ہر بات پرانی ایک سی ہے
کچھ یادیں ہیں، فریادیں، کچھ آنسو ہیں، کچھ آہیں ہیں
لہروں کا تلاطم ایک سا ہے، دریا کی روانی ایک سی ہے
دریا کی سطح پر موجوں کی پرسکون روانی ہے، بجا، اُس کی تہہ میں ایک بے کراں طوفان کا راز بھی ہچکولے لے رہا ے۔ رضیہ کی غزل گوئی وہ راز افشاء کرنے کی مجاز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔