میں پورے گاؤں کے حصے کا پانی بیچ دیتا ہوں
کبھی دریا ، کبھی اس کی روانی بیچ دیتا ہوں
کسی بھی منطقی انجام تک جانے نہیں دیتا
کسی کردار سے مل کر ، کہانی بیچ دیتا ہوں
کوئی تحریر بھی پابند کر سکتی نہیں مجھ کو
میں دستاویز تک کو بھی زبانی بیچ دیتا ہوں
کسی تازہ محبت کی خریداری کے زمرے میں
کسی پچھلی محبت کی نشانی بیچ دیتا ہوں
مجھے تبدیل ہونے میں ذرا سا وقت لگتا ہے
نئی پوشاک ملتے ہی پرانی بیچ دیتا ہوں
مناسب دام مل جائیں اگر تو سوچنا کیسا
ہٹا لیتا ہوں لشکر ، راجدھانی بیچ دیتا ہوں
جو ہوتے ہی نہیں ، کاغذ پہ وہ نقشے بنا کر میں
گماں ایجاد کر کے ، خوش گمانی بیچ دیتا ہوں
جو حاصل ہے اسے بازار میں لاتا نہیں نجمیؔ
مگر خلق ِ خدا کو رائیگانی بیچ دیتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔