ایوب خاور کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ کراچی میں اور میں لاہورمیں ہوتا تھا اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھی تھی یعنی وہ کیسے اچھے دن تھے!اب گزشتہ چند برسوں سے ہم دونوں ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی نظم ونثرسمیت برداشت کررہے ہیں۔جب وہ کراچی میں تھا تو میں اس کی غزلیں ’’فنون‘‘ میں پڑھاکرتاتھااور ان سے لطف اندوز ہوتا تھا لیکن جب سے اس کے ساتھ ’’دوبدو‘‘ دوستی ہوئی ہے۔اس کی غزلیں کہیں چھپی دیکھتا ہوں تو پڑھنے کی کوئی اتنی جلدی نہیں ہوتی کہ ا پنا’’خوشیا‘‘ ہی تو ہے۔ دراصل مداح اور ممدوح کی جب بھی دوستی ہوتی ہے، بیچارے ممدوح کا انجام یہی ہوتاہے!
آگے چلنے سے پہلے ایک اعلان ابھی سے کرتا چلوں اور وہ یہ کہ میں دوستوں کے خاکے خاصے مختصر لکھتا ہوں کیوں کہ تفصیلی لکھنے سے وہ ناراض ہوجاتے ہیں، ایوب خاور کے بارے میں اظہارخیال تومزید مختصر کروں گاکیوں کہ یہ انتہا سے زیادہ شریف آدمی ہے۔چناں چہ اگرمیں نے اس کی شرافت کی تفصیلات بیان کیں تو یہ بھی ناراض ہوجائے گا۔کون شریف آدمی چاہتا ہے کہ اس کی ریپوٹیشن ایک شریف آدمی کی ہو۔ خاور کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع مجھے ’’اپنے پرائے ‘‘کی ریکارڈنگ کے دوران ہوا کہ لاہور ٹیلی وژن کے لیے یہ سیریل لکھنے پرمجھے اس نے زبردستی آمادہ کیا۔ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے تاہم اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ سیریل کے دوران خاورسے میری لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ جس سے محبت پختہ ہوگئی۔ بہرحال اس عرصے میں اور ظاہر ہے اس سے پہلے بھی جو خاورمیرے سامنے آیا، وہ ٹیلی وژن میں رہتے ہوئے بھی خواتین سے دور دور رہنے والا خاور ہے۔یعنی ؎ بازار سے گزرا ہوںخریدار نہیں ہوں!
چناں چہ کام کی طلب گار خوش نما بیبیاں اس کے دفتر کے چکر لگاتی تھیں اور یہ انہیں آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔اورینٹل کالج میں میرا ایک دوست عبدالغنی فاروق بھی انتہائی شریف آدمی تھا۔اُسے لڑکیوں کے جھرمٹ میں جس سے ٹکرانا ہوتا،اُس سے جاٹکراتا اور یوں اُس کی دیکھا دیکھی ہم لوگوں نے بھی نظریں جھکا کر چلنا شروع کردیا تھا۔تاہم اپنا ایوب خاور تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے مگر اس دوران اس کی آنکھوں میں ایک بال سا ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے خوب صورت غزلیں کہنے والے اس شاعر نے کتنی ہی غزلیں اپنے دیوان میں شامل ہی نہیں ہونے دیں،حالاں کہ ایک ٹیلی وژن پروڈیوسر کے بارے میں شبہ ہے کہ جب بطور پروڈیوسر اپائٹمنٹ کے بعد اس نے اپنی پہلی تنخواہ وصول کی تو اس نے حیران ہو کر کہا’’ہیں!‘‘ اس کام کی بھی تنخواہ ملتی ہے!
ایوب خاورکی شخصیت کا دوسرا پہلو اس کا ایمان دار ہونا ہے، کام کے اوقات کے دوران اگر شعر بھی سوجھ رہا ہو تو اسے بھی کان سے پکڑ کر دفتر سے باہر نکال دیتا ہے۔اسی طرح یہ شخص پاگل پن کی حد تک محنتی ہے۔ میں نے اسے مسلسل اڑتالیس اڑتالیس گھنٹے کام کرتے دیکھا ہے اور خالی پیٹ کام کرتے دیکھا ہے۔ اور شاید اس کی ’’قابلِ رشک‘‘صحت کا یہی راز ہے۔حالاں کہ شوبزنس سے وابستہ خواتین بھی جنھیں سمارٹ نظرآنا چاہیے۔بہت چٹخوری ہوتی ہیں اور ڈائٹنگ وغیرہ کے جھمیلوں میں نہیں پڑتیں۔چناں چہ ایک دفعہ حسن لطیف مرحوم نے ایک محفل میں ملکہ ترنم نورجہاں سے کہاتھا کہ ’’بی بی کوئی ایسا گانا سنائو جو تم نے خالی پیٹ گایا ہو؟‘‘اورایوب خاور کی شخصیت کا چوتھا اور سب سے اہم پہلو اس کا انتہائی تخلیقی ہونا ہے۔ یہ شخص جب کوئی پروگرام کررہا ہو اس میں مکمل طور پر ڈوب جاتا ہے اور اس کی کتنی ہی خوب صورت جہتیں سامنے لاتا ہے حتیٰ کہ اگر اسے ’’اللسان العربی‘‘والاپروگرام بھی سونپ دیا جائے تو مجھے یقین ہے یہ پروگرام دیکھنے والے ’’حبیب بینک لمیٹڈ‘‘ کو بھی حبیب بینک اَن لمیٹڈ کہنے لگیں گے!
ایوب خاور ہمارے ان شعرامیں سے ہے جن کی ڈکشن یکسر طور پر مختلف ہے اور میرے نزدیک بالکل اچھوتی ڈکشن والے شعرا میں منیر نیازی، اختر حسین جعفری،ثروت حسین، محمد اظہار الحق، اجمل نیازی، زاہد مسعود، علی اکبر عباس اور ایوب خاورشامل ہیں۔اگراچھوتی ڈکشن ہی سب کچھ ہوتی تو شاید ایوب خاور یا دوسرے شعرا میرے نزدیک اتنے اہم نہ ہوتے ،کیوں کہ ڈکشن توشاعری کالبادہ ہے اس کا لباس ہے جس طرح کچھ شاعر پھندنے والی ٹوپی پرمالٹا باندھ کر مشاعروں میں کلام سناتے ہیں اور یوں بھرے مجمع میں بھی پہچانے جاتے ہیں،اسی طرح اگریہ شعراخالی خولی ڈکشن اپنے سروں پرسجائے پھرتے تو ان میں اور پھندنے والی ٹوپی سرپر سجانے والوں میں کوئی فرق نہ ہوتا مگر جس طرح لباس کے اندر کوئی انسان بھی چھپا ہو، تو اس انسان کی عزت ہوتی ہے، اس طرح ڈکشن کے لبادے میں شاعری موجود ہو تو شاعر صاحبِ عزت کہلاتا ہے۔ ایوب خاورمیرے نزدیک صاحب ِعزت شاعر ہے کہ اس کے پاس ڈکشن بھی ہے اور خوب صورت خیال بھی ہے یعنی دستار بھی ہے اور دستار کے نیچے سربھی ہے۔چناں چہ میں اس وقت سے اس کا مداح ہوں جب وہ کراچی میں ہوتا تھا اور میں نے اس کی شکل تک نہ دیکھی تھی۔ میں اس زمانے میں ان کی غزلیں پڑھ کر بہت مرعوب ہوتا تھا مگر اب تو وہ میرا دوست ہے ،بہت جی چاہتا ہے کہ اس کی بڑائی کا اعتراف کروں لیکن دوستوں کی بڑائی کا اعتراف بھلا کیسے کیاجاسکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔