ظلمت صفت ہے رات کے کردار کی طرح
اضدادِ قول و فعل ہے اسرار کی طرح
پل پل ہے انتشار سا ہر سو درونِ ذات
اکیسویں صدی کے ہے اخبار کی طرح
پھسلن تو زندگی کی سنبھالی نہیں گئی
اس بار بھی پھسل گئے ہر بار کی طرح
سانسوں سے جن کی آتی ہے بارود کی سی بْو
لہجے بھی ان کے ہوتے ہیں ہتھیار کی طرح
یہ شہرِ بے اماں میں مہاجر کی طرح ہم
اصغرؔ یہاں نہیں کوئی انصار کی طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔