(’’ڈاکٹر سید عبداللہ فن و شخصیت ‘‘کے حوالے سے)
پروفیسر ڈاکٹر روبینہ شاہین ( شعبہ اردو جامعہ پشاور ) کے ساتھ تعلق و شناسائی کا سلسلہ بہت زیادہ طویل نہیں،مگر اْن کا تعلق اور شناسائی رکھنے کا انداز رفاقتوں کا ایک ایسا سرگرم سلسلہ ہے کہ لگتا ہے کہ عشروں سے وہ رابطے میں ہیں۔ڈاکٹر روبینہ شاہین صاحبہ کی تدریسی مصروفیات،محققانہ رویوں اور نقادانہ صلاحیتوں کی میں ہمیشہ سے قائل رہی ہوں اور تقلید کی کوشش اور جسارت بھی کرتی رہی ہوں اور اس اقرار کو میں اپنی ذات کے لیے ایک اعزاز تصور کرتی ہوں۔
اکادمی ادبیات پاکستان کی زیرِ نگرانی " پاکستانی ادب کے معمار" کے عنوان سے تصانیف کے ایک سلسلے کی بنیاد رکھی گئی۔جس میں معروف ادبی شخصیات کی شخصیت،سوانح ،علمی و ادبی خدمات اور فکر و فن کو معروف محققین اور نقادوں کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے اوراکابرین کی سوانحی کیفیت اور فنی مقام کا تعین ایک جامع انداز میں قارئین کے ذوق ِ مطالعہ کی نذر کیا جاتا ہے۔"ڈاکٹر سید عبداللہ :شخصیت اور فن" کے عنوان سے ڈاکٹر روبینہ شا ہین صاحبہ کی کتاب نظر سے گزری جسے پروفیسر ڈاکٹر روبینہ شاہین صاحبہ نے کمال مہارت سے تحریر کیا ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ کی شخصیت کسی تعارف اور تعریف کی محتاج نہیں۔علمی و ادبی حلقوں میں ڈاکٹر سید عبداللہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔اردو زبان کے نفاذ کے لیے ان کی عملی کاوشیں سراہے جانے کے قابل ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبانوں کی ترقی و ترویج کے لیے ان کی علمی ،ادبی اور تدریسی خدمات کے سب ہی معترف اور دلدادہ ہیں۔تصنیف،تالیف،تحقیق اور تنقید کے حوالے سے ڈاکٹر سید عبداللہ ایک معتبر حوالہ ہیں۔اردو زبان و ادب کے نامور ادیبوں میں اْن کا شمار ہوتا ہے۔اس بیان کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ایسی قدآورہستی کی شخصیت اور فن کا احاطہ کرنا آسان نہیں ہوتا اور یہ اعزاز ڈاکٹر روبینہ شاہین کو حاصل ہوا کہ انہوں نے ڈاکٹر سید عبداللہ کی شخصیت اور ان کے فن کا تجزیہ کامل مہارت،فن کارانہ چابکدستی اور علمی بصیرت سے کیا ہے اور بلاشبہ اس ضمن میں وہ داد کی حق دار ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر روبینہ شاہین کے اندازِ تحریر میں اختصار اور جامعیت ایک نمایاں وصف کے طور پر موجود ہے۔زیر ِ نظر تحقیقی کام میں بھی انہوں نے اسی انداز اور روش کو اختیار کیا ہے۔جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ ڈاکٹر سید عبداللہ کی شخصیت ہمہ جہت اور فن متنوع جہات لیے ہوئے ہے۔ان سب صفات کا احاطہ کرنے کے لیے کسی کتاب کی کئی جلدیں درکار ہوتیں۔مگر ڈاکٹر روبینہ شاہین نے انتہائی مختصر پیرائے میں ان کی جامع حیثیت کا تعین کر دیا ہے۔اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کلیّت اور جامعیت سے ڈاکٹر روبینہ شاہین نے خوب صورت انداز سے ڈاکٹر سید عبداللہ کی سوانحی حیثیت اور شخصیت کا احاطہ کیا ہے،ان کی مصروفیات، پیدائش،تعلیم و تربیت اور حالات زندگی کے جملہ پہلو بیان کر دئیے ہیں،تدریسی مصروفیات تصانیف اور مقالات کا اس طرح ذکر کیا ہے کہ اک تصویر سی کھنچ گئی ہے۔وہ تحریر میں حقیقت کے رنگ بھرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبداللہ کے اعزازات،علمی و ادبی خدمات اور ناقدین کی آرا شامل کرتی جاتی ہیں اور اس طرح ڈاکٹر سید عبداللہ پر نقد اور تبصرے کا راست حق ادا ہوجاتا ہے۔خاص طور تصانیف ،مقالات ،اعزازات اور کانفرنسز میں شرکت کو بیانیہ مفصل انداز میں تحریر کرنے کی بجائے نمبر شمار دے کر ترتیب سے لکھ دیا ہے۔اس لحاظ سے ڈاکٹر روبینہ شاہین کا ایک امتیازی وصف ان کا ذوق ترتیب بھی سامنے آتا ہے۔حالاتِ زندگی کا بیان ہو یا علمی و ادبی خدمات،ہر چیز مرتب دکھائی دیتی ہے۔علاوہ ازیں ان کا اندازِ تنقید جانب داری اور ذاتی پسند پر مبنی نہیں ہے۔ان کا ذوقِ تنقید موثر ،صادق، پرزور اور جدیدیت کا قائل ہو کر معتبر رائے کو سامنے لاتا ہے۔نیز اس کتاب میں مصنفہ کا تحقیقی میلان بھی جدت طرازی پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ مکمل سائینٹفک بھی ہے۔وہ تحقیق کے جدید اصولوں سے بخوبی شناسا ہیں اور ان کے التزام کا ہنر بھی جانتی ہیں۔اس لیے ان کی تحقیق ،حوالہ جات،حواشی اور کتابیات سے لیس ہو کر پڑھنے والوں کے لیے ڈاکٹر سید عبداللہ کی شخصیت و فن کی ایک جامع تصویر پیش کر رہی ہے۔
ڈاکٹر روبینہ شاہین کے اسلوب میں ان کا تجزیاتی انداز اور اس انداز میں وضاحت ِ بیان ایک خوب صورت اضافہ ہے۔وہ انتہائی سادہ مگر پْر اثر انداز سے اپنی تحریر کو گویا لڑی میں پروتے ہوئے خیال کو خیال سے مربوط کرتی جاتی ہیں۔بناوٹی اور ثقیل الفاظ سے احتراز کرتے ہوئے آسان اور سادہ روزمرہ میں مقصد کی بات کو احاطہ تحریر میں لاتی ہیں اور یہ خوبی بغیر کسی شعوری کوشش کے ان کے اندازِ بیان کو موثر ،دلکش اور جاذبِ نظر بناتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر روبینہ شاہین صاحبہ علم وادب کے میدان میں نووارد تو نہیں کہ ان کے تعارف کی ضرورت محسوس ہو۔آپ کی علمی و ادبی خدمات وسیع ہیں۔تصنیف و تالیف کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔تخلیقی ادب کے ساتھ ساتھ تنقید،تحقیق،مقالات،کانفرنسز کا انعقاد اور شرکت کے ساتھ ساتھ تدریسی فرائض کی انجام دہی انتہائی تندہی سے کر رہی ہیں۔آپ کی زیر ِ نگرانی بے شمار لوگ ایم۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی کر چکے ہیں،کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔علمی و ادبی سفر کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ میں دیگر قارئین کے ساتھ دعا گو ہوں کہ علم ،آگاہی،شعور اور ادراک کا یہ چراغ تادیر یوں ہی روشن رہے،روشنی بکھیرتا رہے اور موجودہ نسل کے ساتھ ساتھ آنے والی نسل کے لیے باعثِ تقلید ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔