پروین عزیز، فرحت نواز کی بچپن کی ہم جماعت سہیلی ہیں۔ پروین عزیز کو عمر کے مختلف حصوں میں فرحت نواز کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ فرحت نواز کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو پروین عزیز اِن الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
’’ اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
فرحت نواز کا اور میرا ساتھ بہت پرانا ہے۔ میٹرک سے ایم۔ اے تک ہم دونوں ہم جماعت، سہیلیاں، ہمدرد اور ایک دوسرے کی قدم قدم کی ساتھی رہیں۔ ہم دونوں نے بے شمار روز و شب اکٹھے گزارے، اکٹھے پڑھا، اکٹھے امتحان دیے، اکٹھے ملازمت کی ، لکھنا بھی ایک ساتھ شروع کیا۔ ایم۔ اے کے دوران ہی اس نے ’’ جدید ادب‘‘ کی ادارت شروع کی، اس کی دو کتابیں ’’ڈاکٹر وزیر آغا دیاںچونڑویاں نظماں‘‘ (جو وزیر آغا کی اُردو نظموں کا سرائیکی ترجمہ تھا) اور دوسری کتاب ’’ منزلاں تے پنڈھیرے‘‘ (جوکرشن چندر سے لے کر رشید امجد کے افسانوں تک کا سرائیکی ترجمہ ہے) منظر عام پر آئیں۔ فرحت بچپن ہی سے کم گو اور تنہائی پسند تھی۔ وہ بڑی معصوم اور بھولی بھالی لڑکی تھی۔ بہت اچھی طبیعت کی مالک تھی۔ (فرق صرف یہ ہے کہ اب وہ اچھی طبیعت کی مالک خاتون کی شکل اختیار کر چکی ہے)۔ اسے سمجھنا آسان نہیں ہے، بعض اوقات تو اتنی پیچیدہ ہو جاتی ہے کہ اگلا بندہ پیچ در پیچ الجھتا چلا جاتا ہے، بوکھلا کر رہ جاتا ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں لیکن بعض اوقات اتنی سادہ کہ ساری گرہیں خود بخود کھلتی چلی جاتی ہیں۔ ‘‘
پروین عزیز پرانی یادوں کے تناظر میں فرحت نواز کی سنجیدہ طبیعت اور خاموش طبع ہونے کا تذکرہ کچھ یوں کرتی ہیں:
’’ جب میری اس سے دوستی ہوئی تھی تو وہ بہت خاموش طبع تھی۔ تقریبات میں اور پارٹیوں میں جا کر کچھ نہیں کھاتی پیتی تھی۔ بہت ہی شرمیلی اور کم گو تھی ۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ وہ کچھ بولے۔ پارٹیوں میں جا کر باقی لوگوں کی طرح کھائے پیے۔ میں اکثر پلیٹ بنا کر اس کے پاس لے آتی کہ وہ کچھ کھا لے۔ میں اس کے ساتھ بہت باتیں کرتی تھی۔ جب مجھے جواب نہیں ملتا تھاتو میں آخر کہہ اٹھتی تھی کہ تم بھی کوئی بات کرو تو مسکرا کر جواب دیتی میرے پاس تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ بس تم بولتی رہو۔ بہت سنجیدہ سی یہ لڑکی بعض اوقات میری باتوں پر بے ساختہ ہنس پڑتی اور میں دل ہی دل میں اپنی اس فتح پر خوش ہوتی رہتی۔‘‘
فرحت نواز کے والدین کا نہایت مختصر تعارف اور اُن کی شخصیت کے وہ عمدہ پہلو جو فرحت نواز کی تربیت کا حصہ بن کر اُن کو ورثے میں ملے اِن کا تذکرہ نہایت خلوص کے ساتھ پروین عزیز کچھ یوں کرتی ہیں:
’’فرحت کے ابا جی ویٹرنری کے ڈاکٹر تھے۔ بہت بارُعب اور اصول پسند انسان تھے۔ ان کا دسمبر ۱۹۹۸ء میں انتقال ہوا۔ امّی جان ماشاء اﷲ حیات ہیں(اﷲ انہیں تا دیر سلامت رکھے) اور اسلام آباد میں اپنے بیٹوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ فرحت کی سرشت میں اپنی امی جان جیسی ٹھنڈک اور ابّا جی جیسی تپش موجود ہے۔ لیکن وہ ساری کی ساری نہ امی جان جیسی ہے نہ ابّا جان جیسی۔ اس کی اپنی منفرد سوچ ہے۔ بسا اوقات وہ بہت زیادہ Straight forwardبات کہہ جاتی ہے جو اکثر دوسروں کو ناگوارگزرتی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ اس کا خمیر محبت سے اٹھا ہے اور اس کی سوچ محبت سے شروع ہو کر محبت پر ختم ہوتی ہے۔‘‘
فرحت نواز کی شخصیت کے اُن رنگوں کا تذکرہ جب پروین عزیز اور فرحت نواز ہاسٹل میں ساتھ رہتے تھے اور ایک ہم جماعت سے زیادہ ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا اُن تجربات کو پروین عزیز ذیل میں بیان کرتی ہیں اور اِس میں سب سے زیادہ نمایاں پہلو فرحت نواز کی طبیعت میں فطری طور پر پایا جانے والا جذبہ محبت اور دوسروں کا حد درجہ خیال رکھنا ہے۔ پروین عزیز لکھتی ہیں:
’’ ایم اے کے دوران ہاسٹل میں رہتے ہوئے ہماری صلح کم اور لڑائی زیادہ چلتی رہتی تھی۔ وہ یونیورسٹی میں بہت مشہور تھی۔ میں سمجھتی ہوں یونیورسٹی کا دور اس کے عروج کا دور تھا۔ میں اکثر اسے ڈھونڈتی رہتی اور پتہ یہ چلتا کہ کچھ ہم جماعت طلبا اور دوسرے طلبا اسے کینٹین لے گئے ہیں اور یہ وہاں اپنا ’’ کلام‘‘ سنا رہی ہے۔ جب یہ مجھے بتائے بغیر اولڈ کیمپس چلی جاتی تو یہ بات اکثر لڑائی کی وجہ بنتی لیکن یہ چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہماری محبت کے قد سے اپنا قد اونچا نہ کر سکیں۔ جن دنوں ہماری بول چال بند ہوتی تو فرحت صبح سویرے اٹھ کر اپنے برش کے ساتھ میرے برش پر پیسٹ لگانا نہ بھولتی۔ ( یہ اس کے روز کے معمولات میں شامل تھا)۔ بات چیت بند ہوتی لیکن ہم دونوں ایک ساتھ کمرے سے نکلتیں۔ اکٹھے یونیورسٹی جاتیں اور اکٹھے ہاسٹل واپس آتیں۔ گویا ناراضی میں بھی ساتھ نہیں چھوٹتا تھا۔ یونیورسٹی میں مجھے احساس ہوا کہ فرحت تھوڑی ترقی پسند اور میں قدامت پسند تھی۔لیکن ہم دونوں کے درمیان یہ نظریاتی اختلاف ہماری دوستی کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ یہ دوستی اور الفت کارشتہ الحمد ﷲ آج بھی برقرار ہے کہ سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا۔ بہ حیثیت ایک دیرینہ دوست کے، فرحت کے لیے میرا یہی کہنا ہے کہ وہ دل کی بری نہیں ہے۔ وہ دل سے کسی کا برا نہیںچاہتی ہے اور معاف کرنے کا جذبہ بھی بدرجہ اتم رکھتی ہے۔وہ تلخ بھی ہو جائے تو اس کی تلخی ایسے درخت کی دھوپ کی طرح ہوتی ہے جس میں کہیں کہیں چھائوں بھی جھانک رہی ہوتی ہے۔ وہ غصے میں بھی اپنی آنکھوں سے نکلتی محبت کی شعاعوں پر قابو نہیں پا سکتی۔ وہ اختلاف کو بڑی جلدی بھلا دیتی ہے۔‘‘
فرحت نواز اور پروین عزیز نے جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو محبت اور دوستی کا یہ رشتہ اسی چاہت اور بے تکلفی کے ساتھ قائم رہا جس کا تذکرہ پروین عزیز دعائیہ کلمات کے ساتھ کچھ یوں کرتی ہیں:
’’ میری اور فرحت کی ترقی بھی ایک ساتھ ہوئی۔ میں نے اسے مبارک باد کا فون کیا۔ اس نے بھی مجھے مبارک باد دی۔ میں نے اسے کہا ’’ میرے لیے اچھا سا کپڑوں کا جوڑا خریدنا‘‘ اس نے بھی مجھے یہ کہا کہ ’’میرے لیے بہت عمدہ جوڑا لینا‘‘ ۔ بہت دلچسپ مکالمہ کرنے کے بعد آخر میں میں نے تجویز دی کہ اگر میں تمہارے لیے جوڑا لوں اور تمہیں پسند نہ آئے اورجو تم خریدو تو وہ مجھے اچھا نہ لگے تو بہتر یہی ہے کہ ہم دونوں اپنی اپنی پسند کا جوڑا خرید کے پہن لیتی ہیں اور یہی سمجھیں گی کہ ہم نے ایک دوسرے کو دیا ہوا جوڑا پہن رکھا ہے۔ اﷲ اﷲ خیر صلّا۔ مسئلہ ختم۔ فرحت میری بہت پیاری اورپکی سہیلی ہے۔ میری دُکھ سُکھ کی ساتھی ہے۔ مجھے بہت عزیز ہے۔ اﷲ اسے صحت کاملہ عطا کریں اور اس کا گھر خوشیوں کا گہوارہ بنا رہے۔ (آمین)۔ ‘‘
(وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد سے ’’فرحت نواز کی ادبی خدمات‘‘کے موضوع پر لکھے جانے والے نازیہ خلیل عباسی کے ایم فل کے مقالے کا مختصر سا حصہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔