محورِ گردشِ دوراں کا تماشا دیکھا
فاصلہ بڑھتا گیا قرب کو ہٹتا دیکھا
غم جاناں نے بھی تصویر بدل لی اپنی
اسکو پہنا غم ہجراں کا لبادہ دیکھا
بعد مدت کے سبھی اپنوں کے چہرے دیکھے
ٹوٹنے والے تعلق کا اعا دہ دیکھا
وصلِ یاراں کے تو قصے تھے پرانے سارے
معرفت ڈھونڈنے نکلے نیا جادہ دیکھا
رقصِ بسمل میں ہوئے گم سبھی ایسے شہناز
ہر قلندر کے بڑھے ہاتھ میں کاسہ دیکھا
.....................