(مرحوم زوار اعظمی کی یاد میں)
قصیدہ گو تو سارے ہی سرِ دربار بیٹھے ہیں
ہمیں بس شعر کہنے ہیں سو ہم بیکار بیٹھے ہیں
ہمیں معلوم ہے پہلی ہی غلطی آخری ہوگی
ہماری گھات میں کب سے ہمارے یار بیٹھے ہیں
تصور میں جو ہے، تعمیر کب ہوگا خدا جانے
بنا کر کب سے کاغذ پر در و دیوار، بیٹھے ہیں
نگاہوں میں جھلک اقرار کی آ بھی گئی کب کی
مگر ہونٹوں پہ وہ اب بھی لیے انکار بیٹھے ہیں
ہماری آستیں آباد کر رکھی ہے یاروں نے
اِدھر دو چار بیٹھے ہیں اُدھر دو چار بیٹھے ہیں
سنبھلتا - گرتا میخانے سے نکلا ہے ابھی واعظ
اُسی کی فکر میں سر جوڑ کر میخوار بیٹھے ہیں
کوئی بھی مطمئن لگتا نہیں اپنی کہانی سے
کہانی کار سے روٹھے ہوئے کردار بیٹھے ہیں
مسافر بھی ہمیں ہیں اور ہمیں منزل بھی ہیں اپنی
ہمیں اِس پار بیٹھے ہیں ہمیں اُس پار بیٹھے ہیں