سوہا کو اپنی دوست ثوبیہ کی ہر مرد کو بھائی جان کہنے کی عادت سے سخت چڑ تھی۔ جان نہ پہچان۔ بھائی جان سلام۔۔۔ سوہا اسے گاہے بگاہے ٹوکتی رہتی تھی اور اگر اس کی اس عادت سے زیادہ ہی عاجز آجاتی تو اسے باقاعدہ ڈانٹ پلا دیتی۔ سوہا کا نقطہ نظر تھا کہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو بھائی جیسے مقدس رشتے سے نتھی کر لینا درست نہیں ہے۔ اور پھر مرد ذات کا کیا بھروسہ۔۔۔۔! ’’آج کل کے زمانے میں تو اپنے سگے بھائی ڈھنگ سے اپنے نہیں بنتے تو تم غیروں کو بھائی اور وہ بھی جان بنانے پر تلی ہوئی ہو۔ ‘‘ وہ ثوبیہ کو سمجھانے کی کوشش کرتی۔ کالج جاتے ہوئے اکثر دونوں میں اس موضوع پر تکرار ہوتی رہتی تھی۔
ثوبیہ کا موقف تھا کہ جس شخص سے کوئی خونی رشتہ نہ ہو تو پھر اس کو بھائی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے مگر سوہا کے خیال میں یہ لفظ بھائی کی توہین تھی۔ وہ ثوبیہ کو طرح طرح کے دلائل دے کر قائل کرنے کی کوشش کرتی کہ ’’بھائی تو اصل معنوں میں وہی ہے جس کے ساتھ ماں کے پیٹ میں پیرپسارے ہوںاور باقی سب۔۔۔۔ نامحرم!‘‘
آج بھی دونوں کالج جانے کے لیے جیسے ہی بس میں سوار ہوئیں۔ کنڈیکٹر نے ذرا سا اخلاق سے راستہ کیا چھوڑا۔ ثوبیہ رشتوں کی پستک نکال کر بیٹھ گئی۔۔۔ ’’بھائی جان ہمیں ریگل کے اسٹاپ پر اترنا ہے۔ بس میں رش بہت ہے۔ کچھ نظر بھی تو نہیں آرہا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پا?ں منزل سے آگے جانکلیں۔‘‘ اور ساتھ ہی اس نے ایک استفہامیہ نگاہ سوہا پر ڈالی۔ گویا اسے اپنی دانست میں کنڈیکٹر کو بھائی جان کہنے کا جواز بتا رہی ہو۔ مگر سوہا کا موڈ صبح صبح ہی آف ہو چکا تھا۔ ثوبیہ کی بات کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے وہ بس کی چھت کو گھورے جا رہی تھی۔ ٹکٹیں کاٹتے ہوئے کنڈیکٹر کا دونوں اور خاص طور پر سوہا کو کن اکھیوں سے دیکھنا سوہا کو زہر لگ رہا تھا۔
اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ چلتی ہوئی بس میں سے چھلانگ لگا دیتی مگر مجبوری تھی کیونکہ کالج وقت پر پہنچنا بہت ضروری تھی اس لیے کہ پہلے ہی پریڈ میں کیمسٹری کی کھڑوس میڈم کا ٹسٹ تھا۔ لیٹ ہونے پر تو وہ کبھی معاف نہ کرتی کیونکہ ڈسپلن کے معاملے میں وہ بہت سخت تھی۔
میڈم کھڑوس دیر سے آنے والی لڑکیوں کے اس قدر لتے لیتیں کہ خدا کی پناہ میڈم کا بس نہیں چلتا تھا کہ لیب میں موجود سارے کیمیکل اکٹھے کر کے۔ کاک ٹیل بنا کر۔ لیٹ لطیف قسم کی لڑکیوں کو پلا دیتیں کہ مرو کم بختو۔ لیٹ آنے کا اتنا شوق ہے تو اب مستقل ہی لیٹ ہی جا?۔
سوہا کو اچھی طرح یاد تھا کہ ابا مرحوم زندگی بھر اس بات پر سختی سے کار بند رہے کہ جن مردں سے عورتوں کا نکاح ہو سکتا ہے وہ سب نامحرم ہیں اور ان کے ناموں کے ساتھ سابقے لاحقے لگا کر انہیں حرمت والے رشتوں کے برابر کرنا۔ ان سے ہنس ہنس کر باتیں کرنا۔ ننگے سر اور کھلے منہ ان کے پاس بیٹھنا۔ شرعی احکامات کی سراسر خلاف ورزی تھی۔ جسے ابا مرحوم نے کبھی قبول نہ کیا۔ اس لیے انہوں نے رشتے کے جتنے کزکز تھے۔ ان سب کا گھر میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا تھا کیونکہ ’’بھائی جان کے پردے میں کیا کیا گل کھلتے ہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ ابا کہتے اور اکثر ’’گل‘‘ لفظ پر بہت زور دیتے۔
بی اے کا امتحان ہوتے ہی دونوں سہیلیوں کے لیے اچھے رشتے آگئے۔ سوہا بیاہ کر لندن چلی گئی اور ثوبیہ امریکہ۔ شروع شروع میں تو دونوں کا کبھی خطوط تو کبھی ٹیلی فون اور ای میل سے رابطہ رہا مگر رفتہ رفتہ گھریلو ذمہ داریوں میں پڑ کر دونوں اپنی اپنی دنیا?ں میں مگن ہو گئیں مگر جب کبھی ثوبیہ سے بات ہوتی۔ سوہا اس کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھتی۔ ’’ارے کتنے اور بھائی جان بنا لیے ہیں یا اب تم سدھر گئی ہو۔‘‘ ثوبیہ ہنستے ہوئے جواب دیتی ’’ارے یار وہ تو بس یونہی ذرا بھائی جان کہنے سے چٹخارہ بڑھ جاتا تھا۔ اور تم تو ہر بات پر ہی سنجیدہ ہو جاتی تھی۔‘‘
لندن آنے کے بعد سوہا کچھ زیادہ ہی مذہبی ہو گئی تھی۔ دوپٹہ تو شروع سے ہی سر پر اوڑھتی تھی۔ اب باقاعدہ سکارف یعنی حجاب اوڑھنا شروع کر دیا تھا۔
اب رفتہ رفتہ سوہا نے یہاں کے اسلامک سرکلز میں بھی جانا شروع کر دیا تھا۔ بڑے بڑے دینی اجتماعات۔۔۔۔ مگر اسے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو برادرز اور سسٹرز کہتے نہ تھکتے کچھ عرصے بعد پتہ چلتا کہ برادر اور سسٹر کے درمیان رومانس چل رہا ہے اور کتنوں کی تو دیکھتے ہی دیکھتے شادیاں بھی ہو گئیں۔ برادرز، سسٹرز سب ہی ایک دوسرے کا Biodataحاصل کرنے میں چپکے چپکے لگے رہتے۔ وہ یہ سب حرکات دیکھتی اور حیران ہوتی رہتی کہ یہ کونسا اسلامک کلچرہے؟ کہاں تو مرد اور عورت کو نگاہیں نیچی کرنے کا حکم۔ عورت کو حکم کہ آواز میں بے جا لوچ پیدا نہ کرے مبادامرد کے دل میں کوئی برا خیال راسخ ہو جائے۔ مگر یہ سب کیا ہے؟ جسے دیکھو دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہے۔ بہت سی لڑکیاں تو حجاب میں بھی بے حجاب نظر آتیں۔ اتنے چست لباس زیب تن کئے ہوتے۔۔۔۔! وہ اکثر سوچتی کہ کیا سر ڈھانپ لینے کا نام ہی حجاب ہے؟ اصل حجاب تو عورت کی نگاہ میں ہوتا ہے۔ اس کی چال ڈھال۔ اس کے نشت و برخاست، اندازِ گفتگو، آواز، یہ سب حجاب کا حصہ ہیں مگر یہاں تو۔۔۔۔۔!
سوہا نے رفتہ رفتہ ایسے اجتماعات میں بھی جانا کم کر دیا۔ زندگی اپنی پوری رفتار سے سر پٹ بھاگ رہی تھی۔ تینوں بچے آہستہ آہستہ بڑے ہوتے گئے۔ سکول، کالج اور پھر اعلی تعلیم کے لیے یونیورسٹیوں میں چلے گئے۔ بڑا بیٹا صائم میڈیکل کی تعلیم مکمل کر کے ہا?س جاب کر رہاتھا۔ منجھلی بیٹی شزہ اب بیرسٹر بن چکی تھی جبکہ سب سے چھوٹی کسوٰی میڈیکل کے فائنل ائیر میں تھی۔
اس کے میاں جواد رائے بزنس کی دنیا میں ایک بہت جانا پہچانا نام تھے۔۔۔۔ کسی بزنس ٹائیکون سے کم نہ تھے۔معاشرے میں بڑی عزت تھی۔ سوہا اکثر اپنی پرسکون گھریلو زندگی ، وفادار اور محنتی شریک حیات اور فرمانبردار اولاد کے گن گاتی رہتی۔ زیادہ رطب اللسان ہوتی تو اماں ٹوک دیتیں کہ ’’اتنی تعریفیں کرنا اچھا نہیں۔ لوگ بھی حسد کرنے لگتے ہیں۔ اور پھر سکھیوں سہیلیوں کے سامنے تو میاں کی بالکل بھی تعریفیں مت کرو۔ مبادا تمہارے ہی گھر کے درپے ہو جائیں۔ اور شوہر کے سامنے تو کبھی بھی سہیلیوں کی تعریفوں کے پل مت باندھو۔ نہ ہی انہیں شوہر سے زیادہ گھلنے ملنے دو، کیا پتہ میاں کوکب۔ ان کی کون سی ادا بھا جائے پھر روتی پھرو گی۔‘‘ جب بھی پاکستان فون کرتی بس اماں کے پاس ایسا ہی نصیحتوں کا پلندہ تیار ہوتا جسے سنتے سنتے وہ کچھ بور سی ہو گئی تھی۔ ’’اچھا اماں اب بس بھی کریں۔ میں کوئی دودھ پیتی بچی تو نہیں ہوں کہ مجھے کوئی ورغلا لے گا۔ جواد بھی ایک ذمہ دار اور وفادار شوہر ہیں‘‘ وہ اماں کو قائل کرنے کی کوشش کرتی۔ اماں چمک کر کہتیں ’’ارے مرد تو ہمیشہ ہی دودھ پیتا بچہ رہتا ہے۔ اس کے اندر کا بچہ تو کبھی بڑا نہیں ہوتا۔ ذرا کوئی اچھی صورت دیکھی تو بچے کی طرح ہمک ہمک کر گود میں سر رکھنے کے لیے بے چین۔۔۔‘‘ اور سوہا ہنستے ہنستے فون بند کر دیتی۔
آج جواد کو آفس سے آنے میں بہت دیر ہو گئی تھی۔ سوہا کب سے ڈائننگ ٹیبل پر اس کا انتظار کر
رہی تھی۔ کھانا ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ کئی مرتبہ فون کر چکی تھی مگر جواد کا موبائل بند تھا۔ شاید کسی ضروری میٹنگ میں ہوں۔۔۔۔ مگر اتنی دیر تو کبھی نہیں ہوتی۔ اکثر فون کر دیتے ہیں اگر لیٹ آنا ہوتو۔۔۔۔ سوہا سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی اتنے میں جواد کی گاڑی ڈرائیوپر آ کر رکی تو وہ بھاگ کر دروازہ کھولنے کے لیے گئی۔
جواد بہت تھکے تھکے قدموں سے ڈرائیو پر گاڑی پارک کر کے نکلے تو سوہا اس کی حالت دیکھ کر مزید پریشان ہو اٹھی۔ خیریت تو ہے جواد۔ اتنی دیر کیوں ہوئی۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے ناں۔ کہیں کوئی۔۔۔۔! اس نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔ جواد نے جواب دینے کی بجائے سوہا کو ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کے لیے کہا اور گھر کے اندر آگیا۔ جواد صوفے پر جیسے ڈھیر سا ہو گیا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے سوہا کی طرف دیکھتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ’’میرا بزنس پارٹنر ارسلان آج صبح ٹریفک کے خوفناک حادثے میں شدید زخمی ہو گیا تھا۔ میں سارا دن اسی چکر میں رہا۔ ہسپتال میںتھا۔ ڈاکٹروں نے جان توڑ کوشش کی مگر جس کا وقت پورا ہو چکا ہو اسے کون بچا سکتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر جواد باقاعدہ ہچکیاں لینے گئے اور اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’مجھ سے اس کی بیوی بچوں کی حالت نہیں دیکھی جا رہی تھی۔ اسی لیے جلدی نہ آسکا۔ ان کا اور کوئی عزیز رشتہ دار ا س شہر میں نہیں ہے۔ زیادہ تر رشتے دار ملک سے باہر ہیں۔ ہمیں ہی سب انتظامات کرنا ہوں گے۔ ‘‘یہ کہہ کر جواد پھر آبدیدہ ہو گئے۔
اگلے چند ہفتے پوسٹ مارٹم۔ تدفین، سوئم، چہلم کی نذر ہو گئے۔ ارسلان کی بیوہ تو جیسے پتھر کی ہو گئی تھی سکتے کی حالت میں تھی، بچے الگ بلک رہے تھے۔ ڈاکٹرز اسے رْلانے کی کوشش کر رہے تھے وگرنہ اس صدمے کا ا س کے ذہن پر مستقل طور پر برا اثر پڑنے کا خدشہ تھا۔
جواد اور ارسلان کافی عرصے سے بزنس پارٹنر تھے۔ دونوں ہی محنتی اور ایمانتدار تھے اس لیے شراکت داری اچھی طرح چل رہی تھی مگر ان کا زیادہ میل ملاقات باہر ہی ہوتا۔ گھروں میں آنے جانے کا زیادہ چکر نہیں تھا۔ اس لیے وہ ارسلان کی بیوہ سے صرف چند مرتبہ خاص موقعوں پر ہی ملی تھی۔
زندگی رفتہ رفتہ معمول پر آتی جا رہی تھی۔ جواد نے ارسلان کی بیوہ کو بزنس میں ارسلان کی جگہ پارٹنرشپ دے دی تھی اور ہر طرح سے گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں میں مدد کر رہا تھا۔ اب ارسلان کی بیوہ کے فون اکثر آنے لگے۔ وہ اب جواد کو بھائی جان کہنے لگی تھی۔ جس سے سوہا کو بڑی وحشت ہوتی۔۔۔۔ کبھی کبھی تو فون کافی رات گئے آجاتے تو سوہا کو کچھ ناگواری کا احساس ہوتا مگر یہ سوچ کر کہ بیوہ عورت ہے۔۔۔ اکیلی ہے۔۔۔ شاید کچھ کام ہو گا۔ کبھی تو وہ ان کی گفتگو پر دھیان دیتی اور کبھی نہیں۔ شکی طبیعت کی وہ نہیں تھی۔
آہستہ آہستہ فون سرگوشیوں میں بدلنے لگے۔ اسے کوفت تو بہت ہوتی مگر جواد سے کچھ کہتے ہوئے ہچکچائی تھی کہ کہیں برا نہ مان جائے کہ وہ اس پر شک کر رہی تھی۔ کیونکہ ان کی تیس سالہ ازدواجی زندگی پر کبھی شک کا سایہ بھی نہیں پڑا تھا۔
چند ماہ بعد اڑتی اڑتی خبر آئی کہ جواد اور ارسلان کی بیوہ نے نکاح کر لیا ہے۔ سوہا اس خبر پر کسی طرح بھی یقین کرنے کو تیار نہ تھی۔۔۔ ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ اس نے خود کو تسلی دی۔۔۔۔ وہ جواد کے بارے میں ایسا سوچ کر بھی شرمندہ ہو جاتی کیونکہ وہ اس قدر چاہنے والا شوہر تھا۔
بالآخر جواد سے اس خبر کی تصدیق کرتے ہی بن پڑی تو اس نے بات کنفرم کر دی۔۔۔ سوہا کے بدن سے مانو کسی نے سارا خون نچوڑ لیا ہو۔ جواد نے بزنس، دوستی اور مذہب کے حوالے دے کر سوہا کو قائل کرنا چاہا مگر اس کے دل کا آئینہ چکنا چور ہو چکا تھا۔
اس کے اندر سے آواز آرہی تھی۔
ٹوٹ کر دل کا شیشہ کبھی پھر سے جڑتا نہیں ہے
توڑ کر عکس سب وہ محبت بھری اک نگاہ ڈھونڈتا ہے
سوہا نے آنسو پونچھتے ہوئے سوچا۔۔۔ آج پھر ایک بھائی۔۔۔۔ جان کی بہن نے۔۔۔ ایک دوسری عورت کی دنیا اجاڑ ڈالی تھی۔۔۔ زندگی بھر جس لفظ سے وہ وحشت زدہ رہی آج۔۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔