یہ اُن دنوں کی بات ہے جب جانِ حزیں پہلی ہجرت کے تجربے سے گزر رہی تھی۔ ہجرت کا ایک تجربہ اپنے اندرکئی متضاد تجربات کا عجیب سا تسلسل رکھتا ہے۔ جب ہم کسی نئی سرزمین پر قدم رکھتے ہیںتو یقین و بے یقینی، شناسائی و نا شناسائی ، رنگ و بے رنگی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یوں استقبال کرتے ہیں کہ جسم و جان پر عہدِ اختیار میں بھی بے اختیاری کے سائے سے ٹھہر جاتے ہیں۔ دھوپ میں بارش کی سی کیفیت بے درودیواراسیری میں لئے رکھتی اور انسان جانے کس تذبذب کے عالم میںبھیگتی ا ٓنکھوں سے مسکرانے لگتا ہے۔ لیکن ایسا بھی تبھی ممکن ہوتا ہے جب انسان شعوری سطح پر ان تجربات کے رنگ ڈھنگ جان لینے کی جرأت و بصیرت سے نوازا گیا ہو اُس نیلی چھتری والے کی طرف سے۔ ۔۔ ورنہ تو عمر گزر جاتی ہے اورآگہی کا در وا نہیں ہوتا، ذات سے کائنات تک رائیگانی کی برف گرتی رہتی ہے اور حسّیات گردونواح سے ایک بے معنی تعارف کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھتیں اور لمحۂ موجود سے کبھی کوئی رشتہ نہیں بن پاتا۔
مگر اگست 1995 میں جب اِفتی نسیم نے اپنے مافوق ا لزمیں حلیٔے یعنی موٹی موٹی زنجیروںسے لدی سیاہ جیکٹ، گلے میں مالا، کلائی میں موٹے سے کڑے اور سر پر سیاہ ڈاربی ہیٹ کے ساتھ گھر کے دروازے کے اندر قدم رکھا تو میں، انتہائی مسرت کے باوجود کھڑی کی کھڑی رہ گی ٔاور پھر میری حیرانی کا لطف لیتے ہوئے جب افتی نے بڑی شدید حیرت سے داہنے ہاتھ کی انگلی اپنے نچلے ہونٹ پر رکھ کر اِک خاص انداز کی مترنم چیخ مار تے ہوئے کہا’’ ــــنوشی گیلانی؟؟؟ ایہہ تُوں ایں؟؟؟‘‘ ، تو میںجہاں بے ہوش ہوتے ہوتے بچی وہاں میرے گرد برسوں کی بڑی محنت سے بنایا ہوا احتیاط و تکلف کاحصار اچانک ٹوٹ گیا۔ اور جیسے روایٔتی تعارف کی ضرورت ہی نہ رہی اور ایک رشتہ سا بن گیا۔ ۔۔ فطری ، براہِ راست اور سچا!
افتی جو میرا دوست بھی ہے، بھائی بھی اور سہیلی بھی! کسے سہولت ہے آج کے دورِ مصلحت آمیز میں کہ اسکے پاس کوئی ایسا بھی ہو جس سے وہ پورا سچ بول سکے، پوری بات کر سکے اوروہ بھی مجھ ایسی شاعر عورت ! جو شاعری کے حوالے سے حادثاتی طور پر مروجہ نام آوری کی سزاوار بھی ہو کہ نام آوری یکتا کرتی ہویا نہیں تنہا ضرور کر دیتی ہے اور اس حقیقت کا ادراک تب ہوتا ہے جب عمر کا آدھا خزانہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ کسی اور کا تجربہ کچھ بھی رہا ہومجھے افتی کے ساتھ ۱حترام و طمطراق سے پورا سچ کہہ دینے کی سہولت پہلی ہی ملاقات میں میسر آ گئی۔ کتنے ہی ماہ و سال گزر گئے، افتی اور میں موقع بے موقع ، ملک بہ ملک، شہر بہ شہر ذات سے کایٔنات تک جشنِ ملامت برپا کرتے آرہے ہیں۔ ستایٔشِ دنیا کے بالعموم اور ستایٔشِ باہمی کے بالخصوص خیمے لگاتے چلے آرہے ہیں۔ اِس عمل کی مسیحائی کمال ہے۔ سو افتی میرے بھائی میری سہیلی! تمہاری خیر ہو! میری زندگی تک تو زندہ ہی رہنا! !!
افتی اور میں دونوں ہی بلا ارادہ بس خوبیِٔ ِ قسمت سے لڑکپن میں ہی شہرت کے سلسلہِ من و تُو کا حصہ بن گیٔ۔ یوں بتدریج ذات سے باہر کی آوازوں کا شور اتنا بڑھ گیا کہ جیسے شعور سے لا شعور تک سنہرے ستاروں والی سیاہ اوڑھنی ڈال دی گئی ہو ۔ جسکا لمس کبھی تو مست الست کرتا اور کبھی حوصلے پست۔ ہم دونوں نے اپنے اپنے خاندانی پس منظر اور اپنی اپنی بستیوں کے تناظر میں رہتے ہوئے ، ریاضتِ روزوشب کا آغاز کیابھرپور فخرو انبساط کے ساتھ ساتھ تخلیقی و معاشرتی ذمہ داریاں ذہنی دباؤ کی حد تک بڑھتی گئیں ۔ اور نو عمری کے اصل تقاضے وجود کے کسی کونے میں چھُپ کر بیٹھ گیٔ۔ میں نے گُڑیاں کھیلنے کی عمر امرتا پریتم کی رسیدی ٹکٹ، احمد راہی کی ترنجن، احمد ندیم قاسمی کی جلال و جمال کو پڑھتے اور گھر کی چھت پر چاند کی نرم روشنی میں چھُپ چھُپ کر نظمیں لکھتے گزار دی۔ اور افتی نے اپنے معروف والد کے ہمراہ اِن جید ہستیوں کی میزبانی کرتے، انکے مباحث کے اسرار و رموز پر غور کرتے اور چپکے چپکے غزل کہتے گزار دی۔بھلا دہائی بھی دیتے تو کس بات کی؟ستایٔش و دشنام، دشنام و ستایٔش۔ اللہ اللہ !
سان فرانسسکو میں جب جب ملاقات کا موقع ملتا رہا ، افتی اور میں وہاں کے مقبول کیفے Star Bucksمیں گھنٹوں بیٹھا کیٔ۔ یہ کیفے امریکہ کے دوسرے موالیوں کی طرح ہمارے لئے بھی لائبریری کے ساتھ ساتھ ا یک طرح کاConfession Box بھی رہا ہے۔ کڑوی کافی کے طویل القامت کپ پیتے ہویٌ کتنی ہی باتیں ہوا کیں،بے شمار یادوں کو تازہ کیا گیا، کیسی کیسی حیرتوں پر حیراںہوئے، کیسے کیسے معجزوں پہ خوش گماںہوئے، کیا کیا نہ قصے دہرائے گئے، اعترافات و اعتراضات کے انبار لگائے گئے۔ ۔۔ اتفاقِ رائے کم کم اور اختلافات بے حدوحساب۔ ہم نے مل کر اپنے خوابوں کی عدم تکمیل پر قہقہے لگا لگا کر زنجیر زنی کی، فتوحات کے اعلان نامے جاری کرتے ہویٌ باربار اپنے آپ کو ناز سے دیکھا۔ بعض اوقات تو جوشِ بیاں میں ہماری آوازیں اتنی اونچی ہو جاتیں کہ کیفے میں بیٹھے لوگ پلٹ پلٹ کر دیکھنے لگتے۔ میں تو معذرت کے لئے مسکرا کر ہاتھ ہلا دیتی مگر افتی باقاعدہ اپنے گہرے سنہری بُت پر منڈھے ہوئے فر کے لمبے کوٹ کو ساڑھی کے پلّو کی طرح درست کرتا، گردن اور بازؤوں میںآویزاں جھلمل پتھر جڑے زیورات کی نمایٔش کرتے ہوئے اپنے سیاہ ہیٹ کو سر سے ذرا سا اوپر اٹھاتا اور زوردار قہقہہ لگاتا۔۔۔ یہی اسکی معذرت تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ معذرت کرتے ہوئے بھی کبھی سر کو خم نہیں کرتا۔ اول اول افتی کے اس انداز پر شبہ سا ہوا کہ کہیں اسے اپنے ہو نے کا احساس خودپرستی کی حد تک تو نہیں؟ کہیں وہ اپنی میں کا اسیر تو نہیں؟ ۔۔۔ پر نہیں! کہ وہ جب اپنے نام سے وابستہ تہمتیں ، گزرے ہویٌ دکھ کی راتیں،ڈھلتی عمر کے خوف شمار کرتا ہے۔اورجب محبتوںکی بازیافت پر بھی بے سروسامانی کا نوحہ کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے اور پھر کہیں کسی مقام پر اچانک رک کر کہتا ہیـ ـــ’’رہے نام اللہ کا‘‘ ، تو بس پھر اللہ کا نام ہی رہ جاتا ہے۔ لگتا ہے افتی کے ذوقِ محبت کی طرح اسکا طرزِ عبادت بھی جداگانہ ہے۔
افتی اور میں سمندر کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہوئے کتنی ہی بار شام کی دبیز دھندکی چھاؤں میں بے تحاشا اداس ہوئے۔۔۔ وہ اک سڑک پر پیلے مکان کی یاد میں نڈھال ہوتا رہتا اور میں تتلیوں کے پروں پر لکھے خطوط دھندلے ہو جانے پر آزردہ ، اپنی اپنی مائوں کے غم اک دوجے سے کہے جاتے، فاختاؤں کے جوڑے دیکھ کر مانگی جانے والی دعاؤں کے تذکرے ہوتے، چوُڑی توڑ کر نکالی جانے والی فال اور کسی انہونی کے ڈرسے پڑھے جانے والے نوافل پر ہنستے ہنستے بے حال ہو جاتے۔گفتگو کے کتنے ہی گرداب کھینچے جاتے۔۔۔ گڑیا کی شادی پر انتظامی کمالات کے مظاہرے، پنجاب کی شادیوں میںگائے جانے والے گیتوں کی دلسوزی، سریندر کور کی بولیاں اور مٹی کے دکھ سکھ، نصرت فتح علی کی قوالیوں میں سُر کے معجزے، ملکہِ ترنم نُور جہاں سے افتی کی والہانگی، میں بابا جی بلہے شاہ جی کی کافیوں میں حال دھمال کی کیفیت کو تصوف کا حرفِ آخرقرار دیتی اور افتی حضرت شاہ حسین کی رمزِ عشق کو۔۔۔۔ فلسفہِ خودی سے لے کر فلسفہِ خیروشر تک کونسا موضوع تھا جو ہماری Folk Wisdom سے محفوظ رہ سکا۔
افتی ایک منفرد انسان ہے اسکا وجود ایسی مٹی سے ڈھالا گیا ہے جس میں عورت کی حساسیت اور خود سپردگی اور مرد کا حوصلہ اور سرکشی کچھ یوں گھُل مل گیٔ ہیں کہ انہیں جدا کر کے دیکھنا بہت مشکل ہے، یکجا کر کے دیکھنا اور بھی مشکل۔۔۔ ورثہ میں ملے کتنے ہی نظریات میں ردوبدل کرنا پڑتا ہے، آزمودہ روایات کو پسِ پشت ڈالنا پڑتا ہے، مگر یہ سب کشمکش بے معنی ہو جاتی ہے جب افتی کسی سرپھرے یقین کے ساتھ کہتا ہے
You have to love me توپھر کہاں کے نظریات اور کونسی روایات!
یہی حال میرے خدائے مجازی سعید خان کا بھی ہے۔وہ بھی افتی کی محبت میںاس حد تک مبتلا ہو چکے ہیں کہ سڈنی کے مصروف ترین راستوں پرگاڑی چلاتے سٹیرنگ سے تقریباََدونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یہاں وہاں فون تلاش کرنے لگتے ہیں، یہ کہتے ہویٌ ’’ ـ ـــ دیکھوذرا رستوں کے کنارے کنارےJacaranda کے کاسنی پھول کتنے بھلے لگ رہے ہیںچلو افتی کو بتاتے ہیں‘‘ ۔ یا جب کبھی ہماری طبعِ شاعرانہ پر یاسیت کا حملہ ہوتا ہے تو جھٹ افتی کا نمبر ملایا جاتا ہے ۔ جیسے افتی نہ ہوا کویٔ طبیب ہو گیا ! اب تو افتی سے محبت میرے اور سعید کے درمیان ایک قدرِ مشترک بن چکی ہے۔۔۔۔ مولاہی کرم کریں۔
افتخار نسیم کا اپنا ایک انوکھا سچ ہے اور اپنی ایک انوکھی جنگ۔۔۔ چند دہائیاں پہلے جب فنِ شعروسخن اس پر منکشف ہوا تو احمد ندیم قاسمی صاحب کی زیرِ ادارت جاری ہونے والے تاریخی جریدے فنون نے اُس کی تخلیقات کو اپنے دامن میںشفقت سے سمیٹ لیا۔ اسکی غزل کا دلربا لہجہ قارئین کی خصوصی توجہ کا باعث بنا اور پھر اپنے پہلے شعری مجموعے ’’ــ غزال‘‘ کی اشاعت سے ہی افتخار نسیم نے جمالِ فکروفن سے اردو شاعری کے منظر نامے پر نمایاں مقام حاصل کر لیا۔
بارشوں کے بعد ست رنگی دھنک آجائے گی
ھُل کے رو لو گے تو چہرے پر چمک آجائے گی
آج بھی مجھ کو یہ لگتا ہے کہ اگلے موڑ پر
جس پہ اک پیلا مکاں تھا وہ سڑک آجائے گی
کچھ نہیں سمجھے گا کوئی لاکھ تم کوشش کرو
جب دلوں کے درمیاں دیوارِ شک آجائے گی
پھر وہ زمانہ آیا کہ افتخار نسیم عشق و رزق کے قافلوں کے ہمراہ امریکہ آگیا۔ یہاں ایک نئی دنیا کی دریافت کا عمل شروع ہو گیا۔ کئی مقامات پر تاریکی نے اندر کی روشنی کو شکست د ی توکئی موڑ آئے جہاں بصیرت نے روشنی کے کرشمے دیکھے۔ وہ ہجرت کی اس مسافت میں جب سفر کے گیت گاتا تو کبھی اسکی لے میں پُر جوش مسافر کی سی وارفتگی ہوتی اور کبھی اسکی آواز میں عزاداروں جیسا سوزو شکستگی۔ کتنی ہی مرتبہ روح پارہ پارہ ہوئی، کئی جگہ پاؤں پھسلا مگر بظاہراس کفر کے مجسمے نے دعا کی ڈورمضبو طی سے تھامے رکھی۔ بقول حضرت میاں محمد بخش؛
میں انہاں تے تیِلکن رستہ ، کِیوں کرملے سنبھالا
دِھکے دیون والے بوہتے تُوں ہتھ پکڑن والا
افتی نے امریکہ میں قیام کے دوران تخلیقی سطح پر بھی فکرو بیاں کے کئی تجربے کیٔ۔ ناول ، افسانہ، انگریزی نظم او ر دیگر اصناف کو بڑی خوبی سے برتا۔ اگرچہ اردو غزل، جو افتی کا خاصہ ہے اسکی مہم جُو فطرت کی وجہ سے کسی حد تک نظر انداز ہوئی۔ افتی کے اہم کاموں میںعالمی امن کے قیام اور انسانی حقوق کی بحالی کی مسلسل جدوجہد میںاپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے۔ اسکی یہ لگن اسے شہر شہر کوچہ کوچہ لئے پھرتی ہے۔ اور وہ اپنے اس مشن کو سب سے مقدم سمجھتا ہے اور اس حوالے سے وہ ایک معتبر حیثیت بنا چکا ہے۔ سماجی اور سیاسی موضوعات پر اسکے لیکچرز نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہیں۔ معروف تعلیمی اور حکومتی ادارے اسے متعدد بارPeace Awards سے نواز چکے ہیں اور یہ سلسلہ دیگر ممالک تک بھی پھیل گیاہے۔ گزشتہ برسوںمیں افتی سے کتنی ہی ملاقاتیں رہیں لیکن 2007 میں آسٹریلیا میں اردو کانفرنس میں شرکت کیلیٔ جب افتی اور میں آسٹریلیا روانہ ہوئے تو تسلسل کے ساتھ تقریباََدس روز تک ، اسکی شخصیت کے رکھ رکھاؤ، مزاج کی وحشت اور ہر لمحہ شرارت کے بے شمار چھوٹے بڑے مظاہرے دیکھنے میںآئے۔جیسا کہ حضرت علی کرم ا للہ وجہہ فرماتے ہیں’’ اگر کسی کہ پہچاننا ہو تو اسکے ساتھ سفر کرو‘‘ ۔ ایک اور موقع پرتاکید کرتے ہیں کہ اگر کسی کو جاننا ہے تو اسے عزت دے کر دیکھو۔ ۔۔ سو میں نے افتی کے ساتھ سفر بھی کیا ، دل سے اسکی عزت بھی کی لیکن مجھے کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔ افتی ہمیشہ اصل زر کو سود کے ساتھ واپس کرتا رہا ہے۔ ۔۔۔۔ یہ ہے افتی اور اسکی افتی خیزیاں !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔