دو لفظوں کے مرکب نام کے حامل رب استاد واقعی اسمِ با مسمیٰ ہیں۔ والدین کے دیے گئے نام رب کے ساتھ استاد جڑا ہو تو اس پر رب کی مہر کیوں نہ ہو ،اور ان کے بہترین استاد ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
لمبا قد، گندمی رنگ، کشادہ ماتھا، روشن آنکھوں کے درمیاں متوازی ناک، نیچی نظریں، سیدھی چال، آنکھوں میں ذہانت کی رمق،چہرے سے شرافت،وضعدار،شہرت نام و نمود سے بے تعلق، حرص و ہوس سے دور، خوش مزاجی، خوش خلقی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ حد درجہ خاکسارو منکسر المزاج شخصیت کے مالک رب استاد سر ایک بہترین استاد، اچھے شاعر، دانشور اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین انسان بھی ہیں۔
پروفیسر عبد الرب استاد کا آبائی وطن سورپور (تماپور) ہے اب مستقل قیام خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی معتبر بستی گلبرگہ شریف ہے۔ 1995میں بحیثیت لکچرار آپ کا تقرر شعبۂ اردو و، گلبر گہ یونیورسٹی میں ہوا۔ فالحال آپ جامعہ گلبرگہ میں بحیثیت صدر شعبہ اردو خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اردو شعبۂ کے ساتھ ساتھ آپ ویژول آرٹس ڈپارٹمنٹ کے بھی ہیڈ ہیں۔ پچھلے ۲۷ برسوں سے گیسوئے اردو کو سنوارنے ، اور اردو شاگرد برادری کو زیورِ علم سے آراستہ کرنے میں کوشاں ہیں۔ سینکڑوں شاگرد آپ سے مستفیض ہوئے ہیں ،ہو رہے ہیں۔ حق گوئی ، خاموش طبعی، سادہ لوحی، خوش اخلاقی سے خدمتِ اردو کرنا آپ کا شیوہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلا کی ذہانت اور غضب کی قوت ِ یاد داشت سے نوازہ ہے۔قلندرانہ مزاج کے حامل پروفیسر عبد الرب استاد اپنے اندازِ تکلم سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں
ریاست کرناٹک کے علمی و ادبی حلقے میں آپ کی شخصیت ایک مستند و معتبر مقام رکھتی ہے۔ آپ اعلیٰ پایہ کے ادیب نقاد، محقق، ، مبصر اور بیدار ذہن شاعر کی حیثیت سے اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ آپ کا قلمی نام عرفان عزیز ہے ، شاعری میں کبھی عرفان، کبھی استاد تخلص فرماتے ہیں۔ آپ شاعری میں اپنی انوکھی آزاد نظموں کے لیے مقبول ہیں لیکن ساتھ ہی پابند شاعری میں بھی آپ کا قلم اسی رفتار سے چلتا ہے۔ ایک ہی نشست میں سینکڑوں اشعار لکھ ڈالتے ہیں جس کی زندہ و عمدہ مثال آپ کا‘ طیور نامہ’ ہے جو مثنوی کی طرز پر لکھی295 کی طویل نظم ہے۔ آپ کی نثر نہایت شستہ و رنگین ہوتی ہے۔ آپ کی تنقید مدلل و غیر جانبدار ی کا بہترین نمونہ ہے ۔ آپکی تنقیدی بصیرت اپنی ایک الگ شناخت اور منفرد پہچان رکھتی ہے۔ آپ فن پارے کی باریکیوں کو گہری نظر سے پرکھتے ہیں ہے۔۔ تخلیقی سفر میں اب تک آپ چار کتابوں کے مصنف ہیں ۱۔ تصور اور تنقید (2008) ۲۔ گوہر اعجاز (2005) ۳۔درِ ادب (2019) ۴۔جدید ادب میں تنہا تماپوری (2020) ان کے علاوہ ۹ کتابوں کے آپ مو ء لف ہیں۔ مزید چار کتابیں زیر طبع ہیں۔ اپنے تدریسی خدمات کے ساتھ اکاڈمیک سرگرمیوں میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں، ریاست کرناٹک کے تقریباً دس جامعیات کے اہم و ذمہ دارانہ عہدے سنبھالے ہوئے ہیں۔ آپ کو 2020 میں گلبرگہ یونیورسٹی پراسارنگا راجوتسو ایوارڈ سے نوازا گیاہے۔آپ ایک شخص نہیں مستقل ادارہ ہیں، اپنے مقناطیسی اثر سے سخت سے سخت دلوں کو بھی موم بنا دیتے ہیں۔
فی البدیہہ شاعری کرنے میں کمال رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کا آپ پر خاص کرم ہے اللہ نے آپ کو غیر معمولی قوتِ ادراک عطا کی ہے۔ کسی بھی موقع کے لیے فوری کلامِ موزوں آپکے قلم سے نکل جاتا ہے ۔کسی سے ملاقات ہوئی،کسی تقریب میں جانا ہوا، کسی کی تحریر پڑھی ہو یا پھر کسی کی تصویر اپنے سیل فون پر موصول ہوئی ہو فوری ردِ عمل شعر کے قالب میں ڈھل جاتا ہے۔ایسا لگتا ہے گویا شاعری آپ پرنازل ہوتی ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ پروفیسر عبد الرب استاد صاحب کی قوتِ مشاہدہ اور قوتِ ممیزہ اتنی تیز ہے کہ وہ جس شئے پر بھی نظر ڈالتے ہیں وہیں ان کے فہم و شعور نے پرکھ اور پہچان کا حق ادا کر دیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایک عام انسان بہت سے معاملات سے سرسری گذر جاتا ہے لیکن جن کو اللہ تعالیٰ نے فہم و فراست عطا کیا ہو وہ کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی کام کا نکتہ ضرور نکال لیتے ہیں۔ اللہ تعالی نے یہ جوہر رب استاد سر کوعطا کیا ہے اور ساتھ ہی قلم کی دولت سے بھی سرفرازکیا ہے۔ بڑے بڑے استاد شعراء کے کلام کی تشریح کرتے وقت ایسی ایسی مدلل توجیحات بیان کرتے ہیں،جس کی طرف کسی کا ذہن نہیں گیا ہوتا۔الطاف حسین حالی نے اپنے استاد غالب کے متعلق کہا تھا میں اس جگہ انہیں اشعار سے مدد لے کر یہاں اپنی بات کو تقویت دینے کی جرأ ت چاہتی ہوںؔ:
اس کی توجیہ سے پکڑتی تھی
شکل امکاں محال کی صورت
اس کی تاویل سے بدلتی تھی
رنگِ ہجراں وصال کی صورت
رب استاد سر کا طرز تحریر بہت صاف اور رواں دواں ہے۔ الفاظ کا انتخاب بہت خوب کرتے ہیں۔ تقریر ہو یا تحریرانداز ایسا دلبرانہ کہ ہائے۔ ‘‘ وہ کہا کرے او ر سنا کرے کوئی’’ بلا کی یادداشت ہے ، کوئی واقعہ سنائے تو سننے والے کی آنکھوں کے سامنے پوری تصویر کھیچ دیتے ہیں۔ لہجہ کے زیر و بم سے قصہ میں جان ڈالتے ہیں ۔آپ کے شاگرد اور احباب آپ کی گفتگو سے بہت محظوظ ہوتے ہیں اور مستفیض بھی۔اپنے طلباء میں بہت پسندیدہ و ہر دلعزیز استاد مانے جاتے ہیں۔ بزرگوں سے عقیدت ،ساتھیوں سے محبت، چھوٹوں سے شفقت اہل و عیال سے الفت آپ کا وطیرہ ہے۔ احباب میں با وقار، ذاتی زندگی میں خوشحال، فرائض کی ادائیگی میں پیش پیش۔ادب ہو یا زندگی ہر جگہ ہمیشہ مثبت سوچ رکھتے ہیں۔میں ایک بار پھر الطاف حسین حالی کے اشعار کی مدد لینا چاہتی ہوں اور رب استاد صاحب کی شخصیت پر کہنا چاہتی ہوں۔
نکتہ داں، نکتہ سنج، نکتہ شناس
پاک دل، پاک ذات، پاک صفات
پاک کردار، پاک باز، پاک طینت آج کے اس مادہ پرست دور میں ایسی شخصیات خال خال ہیں۔ میرے دل میں ان کے لئے شکر کے جذبات کا جو بحرِ بے کراں موجزن ہے اس کے لئے اظہار کا سفینہ کہاں سے لاؤں۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔