سرائیکی زبان کا آغا زکس خطہ سرزمین پر ہوا اس حوالے سے ابن کلیم احسن نظامی لکھتے ہیں:
‘‘ آج سے تین ہزار سال پہلے اس خطہ قدیم ‘‘ملتان ’’میں آسور قوم کی حکومت تھی ، یہ دور قبل ازمسیح کہلاتاہے زمانے کے حالات وتغیرات کے ساتھ ساتھ اس خطے اور اس کی ‘‘ بولی’’ کا نام بھی بدلتا رہا۔ اِن تبدیل پذیر ناموں میں سے یہاں کی قدیم بولی کا نام ‘‘آسور کی ’’کی ’’بعد میں ‘‘آسر کی ’’پھر ‘‘ شراواکی’’ اور آخر میں موجودہ نام ‘‘ سرائیکی’’ ہوا۔ اسی طرح دنیا کے اس قدیم خطے کا نام بھی ملیتھان ، مولتان اور پھر ‘‘ملتان ’’زبان زد ِعام ہوا۔’’
سرائیکی زبان کی جائے پیدائش ملتان ہے اور ہر زبان کی طرح یہ زبان بھی ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے بہت سی تبد یلیوں اور اضافوں سے دوچار ہوئی اور جب یہ قدرے مستحکم ہوگئی تواس میں اضافے کیے جانے لگے اور چونکہ اس سرزمین پر ۹۳ہجری میں محمد بن قاسم کی لڑائی کے بعد علم وادب کا مرکز اور ماخذ مذہب اسلام تھا۔ اس حوالے سے نامور صوفیاء، اولیا کرام اورعلمائے کرام نے اپنا کردار اداکیا۔ اس دور کے حوالے سے ابن کلیم احسن نظامی لکھتے ہیں:‘‘سر زمین ملتان کی قدیم لائبریریوں، کتب خانوں اور بعض علم دوست گھرانوں کی ذاتی ملکیت میں قرآن پاک کے عربی متن کے ساتھ سرائیکی ترجمے موجود تھے ۔ دیگر قیمتی قلمی کتب ہزاروں کی تعداد میں موجود تھیں جن میں سرائیکی زبان کی انشاپر دازی اور اس کی گرائمرکے بارے میں مستندلغات (ڈکشنریاں )آج سے دو صدی قبل موجود تھیں۔’’
سرائیکی علم وادب کو شدید نقصان اس وقت پہنچایا گیا جب یہ علاقہ غیر مسلم اقوام کے زیر تسلط آگیا اور ماضی کے بہت سے حملہ آوروں کی طرح اس بار بھی سب سے زیادہ لوٹ مار اور قتل وغارت کے علاوہ کتب خانوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔یوں سرائیکی زبان میں جو علمی خزانے موجود تھے ان کا نام ونشان بھی مٹادیا گیا جس کی تفصیل ابن کلیم احسن نظامی یوں بیان کرتے ہیں:
‘‘پریشان کن صورتحال سرائیکی خطہ،اس کے لوگوں اور سرائیکی لسانیات وادب کے ساتھ اس وقت پیش آئی جب ۱۸۱۸ء میں سرزمین ملتان کے سکون کو سکھ شاہی دورنے تاراج کیا۔ ملتان کے آخری مقامی معزز فرمانروا نواب مظفر خان شہیدؒ کو پورے خانوادے سمیت تہہ تیغ کر دیا گیااور اعلان عام کر دیا گیا کہ مساجد کو اصطبل بنادیا جائے اور مسلمانوں کے علم وفن کو یکسر تباہ کر دیا جائے ۔ پھر کیا تھاسکھوں، ہندوؤں اور، لوٹ مار کرنے والے لوگوں نے سرائیکی خطے کے امن کو تہہ وبالا کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی دھرتی اور اسلامی اقدار سے والہانہ پیا ر کر نے والوں کو تہہ تیغ کرکے خون کی ندیا ں بہادی گئیں تو دوسری طرف کتب خانوں میں نادر کتابوں قیمتی لسانیاتی تحقیقی مواد غرض کہ قرآن پاک کے قلمی نسخوں تک کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا جو صلیبی جنگوں کے دوران ماضی میں مسلمانوں کے عظیم علمی وتحقیقی مرکز سپین کے ساتھ رونما ہوا تھا۔ اس وقت بھی مسلمانوں کے تما م علمی ، ادبی اور لسانی آثار وکتب خانے جلادیے گئے تھے اسی طرح سکھ شاہی دور میں اس سرائیکی خطہ کو اکتیس ‘۳۱’برس تک تاراج کیاگیا ، اس کی ثقا فت اور لسانی تشخص کو بگاڑنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے گئے۔ ’’
تباہی وبربادی کی یہ داستان تھمی نہیں بلکہ جب انگریزوں نے اس خطہ سر زمین پر حملہ کیا تو رہی سہی کسر انہوں نے پوری کر دی گویا سرائیکی کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس زبان کو مستحکم ہونے سے پہلے ہی اس کے تحریری خزانوں کو آنے والی نسلوں میں منتقل ہونے سے پہلے چھین کر مٹادیا گیا۔ اسی طرح کئی سو سال کا سفر کر کے اس مقام تک پہنچنے والی زبان پھر سے تہی دامن رہ گئی ۔ اس قیامت اور ہولناکی کو ابن کلیم احسن نظامی یوں بیان کرتے ہیں:
‘‘۱۸۴۹ء میں جب انگریزوں نے اس خطے پر چڑھائی کی تو رہی سہی کسر انہوں نے نکال دی۔ عید گاہ میں تو پیں نصب کرکے گولے پھینکے گئے تو قلعہ ملتان تباہ ہوکر کھنڈر بن گیا۔ تقریبا ایک سو سال تک بدیسی حکمرانوں نے ہمارے کلچر ، زبان حتیٰ کہ ہماری آزادی کو جی بھرکے پائمال کیا۔ تمام سرائیکی علاقوں کا مرکز قدیم زمانہ سے ہی ملتان رہاہے۔ ڈیرہ غازی خان جھنگ یا بہاولپور وغیرہ اس کے گردونواح شمارہوتے تھے تو ظاہر ہے کہ زمانہ کی چیرہ دستیوں سے مجموعی طور پر مغموم اور یتیم ہوکر رہ گیا۔ ’’
ان حالات میں سرائیکی زبان کو علمی اور تحریر ی میدان میں نئے سرے سے سفر کرنا پڑا ۔ اور ہر دور میں آنے والے علماء شعرا، ادبا نے اپنا اپنا کردار نبھایا اور پھر ترجمہ نگاری سے اس زبان کو دوسری بڑی زبانوں کی چاشنی اور آہنگ سے متعارف کروانے کی سعی کی جاتی رہی اور یوں سرائیکی زبان کو تقویت دی جانے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔